پیر وارث شاہ ۔۔۔ مہرساجدشاد

سائبان ویلفیر سوسائٹی گوجرانوالہ اور روزنامہ بھلیکھا کے زیر انتظام مزار پیر وارث شاہ پر بیٹھک منعقد ہوئی۔ اس روح پرور تقریب میں کلام سنا گیا اور  پیر وارث شاہ صاحب کی شاعری پر بات کی گئی۔

پنجابی زبان کی وسعت اور اثر انگیزی جاننے کے لئے ہمیں صوفی شعرا کو پڑھنا پڑے گا۔ بابا فرید گنج شکر، میاں محمد بخش، بابا بلھے شاہ، پیر وارث شاہ سب نے اپنی شاعری کے ذریعے مخلوق کو اپنے خالق سے متعارف کروایا، انہیں زندگی جینے کی تعلیم دی ہماری آنے والی نسلوں کیلئے زندگی سیکھنے کا نصاب لکھ دیا۔ پیر وارث شاہ کو پنجابی کا شیکسپئر کہا جاتا ہے کیونکہ اوّل ان کی پنجابی زبان پر گرفت اور واقعات کے لیے بیان میں روانی انہیں ماہر زبان دان ثابت کرتی ہے ساتھ ہی اپنے عقیدے اور سوچ کے مطابق اپنے کھڑے کئے کرداروں کی زبان سے پند و نصائح کی صورت اپنا فلسفہ زندگی بڑی مہارت سے پیش کرنا انہیں شیکسپیئر سے کہیں ممتاز کرتا ہے۔ ہمیں اگر اپنی ماں بولی زبان پنجابی کو زندہ رکھنا ہے تو اپنے صوفیاء کے کلام کو عام کرنا ہو گا، ان بزرگوں سے جڑنا ہو گا۔ پنجابی زبان زندہ رہے گی تو یہ فلسفہ زندگی کا خزانہ بھی ہماری آئیندہ نسلوں کے کام آئے گا۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ پنجابی سکھوں نے پنجابی زبان کی حفاظت و بقاء کے لیے گراں قدر اور قابل تقلید خدمات انجام دیں ہیں۔ 

وارث شاہ پنجاب کی دھرتی کے ایک تاریخی قصبہ جنڈیالہ شیر خان جو شیخوپورہ سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت 5 ربیع الثانی 1130ھ 1718ء بتائی جاتی ہے۔ سرکاری طور پر 1722ء کو آپ کی پیدائش کا سال تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ کے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔ ابتدائی تعلیم قصبہ میں ہی مسجد سے حاصل کی۔ ابھی کمسن ہی تھے کہ علم حاصل کرنے کی غرض سے قصور کی جانب روانہ ہوئے۔ حضرت مولانا غلام مرتضٰی جو اس وقت قصور میں ہی تشریف فرما تھے کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔

آپ نے بابا بُلھے شاہ کے ہمراہ اُن سے تعلیم حاصل کی۔ دنیاوی علم حاصل کر چکے تو مولوی صاحب نے اجازت دی کہ جاؤ اب باطنی علم حاصل کرو اور جہاں چاہو بیعت کرو۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بابا بلھے شاہ نے تو شاہ عنایت قادری کی بیعت کی جبکہ سید وارث شاہ نے خواجہ فریدالدین گنج شکر کے خاندان میں بیعت کی۔ کہا جاتا ہے کہ پاک پتن میں آپ کو بھاگ بھری ایک خاتون سے عشق ہو گیا۔ وہاں سے رخصت کر دئیے گئے تو ملکہ ہانس میں ایک مسجد میں مسکون ہوئے۔ وہیں اپنی شہرہ آفاق تصنیف ہیر رانجھا لکھی۔ بظاہر ایک عشقیہ داستان دراصل اپنے اندر فلسفہ حیات، اصول حیات، خدمت انسانیت، عشق حقیقی کا نصاب لئے ہوئے ہے۔ 

جب ”ہیر رانجھا“ کے قصہ کے متعلق آپ کے استاد محترم غلام مرتضٰی کو علم ہوا تو انہوں نے اس واقعہ پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا وارث شاہ، بابا بلھے شاہ نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجائی اور تم نے ہیر لکھ ڈالی۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو مولانا نے اپنے مریدوں کو کہہ کر آپ کو ایک حجرے میں بند کروا دیا۔ دوسرے دن آپ کو باہر نکلوایا اور کتاب پڑھنے کا حکم دیا۔ جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو مولانا صاحب کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ سننے کے بعد فرمایا، وارثا! تم نے تو تمام جواہرات مونج کی رسی میں پرو دیے ہیں۔ 

یہ پہلا فقرہ ہے جو اس کتاب کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے۔ 

سید وارث شاہ درحقیقت ایک درویش صوفی شاعر ہیں۔ وارث شاہ کا دور محمد شاہ رنگیلا سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کا زمانہ ہے۔ آپ کا کلام پاکستان اور ہندوستان بالخصوص سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ ”ہیر“ میں بہت سی کہاوتوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں۔ وارث شاہ کی ”ہیر“کے علاوہ دوسری تصانیف میں معراج نامہ، نصیحت نامہ، چوہریڑی نامہ اور دوہڑے شامل ہیں گو ان کے بارے اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ان کی تصانیف ہیں۔ 

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وارث شاہ نے شادی کی تھی اور ان کی ایک بیٹی بھی تھی جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وارث شاہ نے شادی نہیں کی تھی۔ آپ کے سنہ پیدائش کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی وفات کے متعلق۔ افضل حق نے اپنی کتاب معشوقہ پنجاب میں لکھا ہے کہ آپ نے 10 محرم 1220ھ میں وفات پائی۔

’حجرہ وارث شاہ دا‘ ملکہ ہانس میں مشہور جگہ ہے جہاں 1767ء میں انہوں نے’ ہیر رانجھا ‘ مکمل کی۔ تین سبز میناروں والی یہ قدیم مسجد آج بھی اپنے حجرے کے ساتھ قائم ہے۔ وارث شاہ کے حجرے والی مسجد کا انتظام اب ’انجمن وارث شاہ‘ کے نام کی تنظیم چلاتی ہے۔

ملکہ ہانس میں حجرہ وارث شاہ میں ہر سال ’جشن وارث شاہ‘ کے نام سے ایک میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں ہیر وارث شاہ پڑھنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔

ستمبر کی 23,24 25 تاریخ کو جنڈیالہ شیر شاہ میں آپ کے مزار پر عرس کی تقریبات ہوتی ہیں جہاں دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں اور ہیر پڑھ کر اور عقیدت سے انکا کلام سن کر ان سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 #مہرساجدشاد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply