طاقت ہی سچ ہے/ڈاکٹر مختیار ملغانی

سچ کی تعریف ہر شخص اور ہر قوم کی اپنی ہے، خرگوش اور لومڑی کا اپنا اپنا سچ ہے، خرگوش کو بھلے لومڑی کا سچ جتنا بھی کڑوا اور ظالمانہ لگے لیکن لومڑی کے نزدیک یہی خالص حق ہے کہ وہ خرگوش کو مار گرائے۔ چونکہ حقیقت کی پوری تصویر کو جانچنا مشکل ترین کام ہے، اسی لئے اپنی وسعتِ نظر کے مطابق، جسے جتنا دکھائی اور سجھائی دے، ہر ایک کا اپنا سچ ہے ، بعض اوقات انسانوں کے یہ سچ ایک دوسرے کے مکمل متضاد بھی ہو سکتے ہیں، اس کا تعلق اس دستور سے ہے جو فرد کی گھٹی میں جینیات، والدین، پرورش، تعلیم اور سماج کی بدولت شامل کر دی گئی ہے۔ مثلاً منگولوں کے نکتۂ نظر سے دنیا ان کی ملکیت تھی، اگر کسی ریاست پر حملے کے دوران مزاحمت دیکھنے میں آتی تو منگول ان مزاحمت کرنے والوں کو مجرم تصور کرتے جو ان کی ملکیت ان کے حوالے کرنے پر تیار نہ ہوتے، اس تصور کے ساتھ ذہن میں ایسے خیال کا آنا بھی دشوار ہے کہ آپ کسی دوسرے کی ملکیت پر بزور بازو قابض ہونے کی ضد کر رہے ہیں ، جبکہ مزاحمت کرنے والوں کا تصور منگولوں سے یکسر مختلف تھا، ان کے مطابق وہ اپنے وطن کی حفاظت کا عظیم فریضہ انجام دے رہے تھے، مذاہب اور تہذیبوں کے ٹکراؤ کا بڑا مؤجب یہی نفسیات رہی کہ ہر ایک فریق خود کو حق بجانب اور مخالف کو غلط قرار دیتا رہا۔

یہاں اہم سوال جو اٹھایا جانا چاہیے، وہ یہ کہ اگر ہر ایک کا اپنا سچ اور ہزاروں لوگوں کے ہزاروں مختلف سچ ہیں تو پھر سچ کا حقیقی سرچشمہ کیا ہے؟

راقم الحروف کے نزدیک سچ کا ایک ہی سرچشمہ ہے اور وہ ہے طاقت ، جس کے پاس طاقت نہیں، اسے سچ سے محروم جانیے  ، اس مرحلے پر تلخ مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ اگر ایک ایمان والا شخص خدا کی مرضی کو سچ اور حرفِ آخر مانتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس مومن کے نزدیک تمام طاقتوں کا مالک خدائے بزرگ ہے، اگر خدا کی طاقت پر شکوک جنم لیں تو اس کے الفاظ پر کان دھرنا بھی گوارا نہ کیا جائے۔

اس وقت اگر مغربی تہذیب ہی سکہ رائج الوقت قرار پائی ہے تو اس کے پیچھے ان کی وہ طاقت ہے جو مغرب سے آتی ہر ہوا کو نسیمِ ارم ماننے کی ترغیب دیتی ہے، تصور کیجئے کہ اگر سولہویں صدی میں یورپیوں اور جنوبی امریکیوں کے درمیان کشمکش میں جیت ریڈ انڈینز کی ہوتی تو آج سماج میں وہی اقدار رائج ہوتیں جو ریڈ انڈینز کے نزدیک شر اور خیر کے پیمانے طے کرتی تھیں، دیوتاؤں کے سامنے انسانی جان کی قربانی پر آج لوگ فخر کرتے، اگر ایسٹ انڈیا کمپنی اور برصغیر پر برطانوی قبضے کی بجائے کسی ویسٹ برٹش کمپنی کی مدد سے برصغیر کے لوگ برطانیہ پر قابض ہو جاتے تو آج گوروں کا قومی لباس شیروانی کی نیچے دھوتی کرتا ہوتا اور پسندیدہ خوراک میں تڑکے والی دال پہلے نمبر پہ ہوتی، جناب مسیح اور ان کے حواری اپنے آفاقی سچ کو منوانے میں جو بھی سعی کرتے رہے، اس سے انہیں پزیرائی نہ مل پائی، جب تلک روم کے طاقتور بادشاہ نے اس سچ کو اپنا کر بااثر نہ کر ڈالا، تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کمزور کی رائے کو درست مانتے ہوئے اسے حق قرار دے دیا جائے، حق وہی ہے جو طاقتور کی زبان سے نکل رہا ہے، انسان ہمیشہ اس موسیقی، فیشن، طرزِ زندگی ، رہن سہن اور اسلوبِ فکر کو ترجیح دے گا جس کا منبع کوئی طاقتور ہو، گلوبل ولیج کی علمبردار درحقیقت مغربی تہذیب اس لئے ہے کہ یہ طاقتور ہے ، افریقی اس لئے نہیں کہ افریقہ کمزور ہے، طاقت کا سرچشمہ بدل جائے تو اس تہزیب کا روپ بدلنے میں قطعاً دیر نہ لگے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے “، یہ معروف جملہ یونانی مفکر سیسرون کا ہے، لیکن یہ بات اُدھوری اس لئے ہے کہ سچ کی کئی اور گاہے بالکل متضاد اقسام ہیں، انسانی سماج میں جیت اسی سچ کی ہوگی جس کے پیچھے طاقت کھڑی ہو ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply