غیر مسلموں کی حضرت عمر کے متعلق رائے۔۔۔۔ حسنین چوہدری

ابو الحفص عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزی العدوی القریشی ملقب بہ فاروق تاریخ پیدائش نامعلوم مکہ میں پیدا ہوئے.
586ء کے آس پاس کی پیدائش ہے.

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ اور جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں.ابوحفص اور فاروق کا لقب و کنیت دونوں نبی اکرم کے عطا کردہ ہیں. آپ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضرت محمدص سے جا ملتا ہے..کعب کے دو بیٹے تھے..ایک مرہ اور ایک عدی . حضرت محمدص مرہ کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت عمر عدی کی..

علم انساب ، سپہ گری ، پہلوانی ، مقرری میں آپ طاق تھے.شبلی نے الفاروق میں مع حوالہ لکھا ہے کہ حضرت عمر کے وقت میں پورے عرب میں عمر سے زیادہ شعر و شاعری اور ادب سمجھنے والا کوئی اور نہیں تھا.لکھائی پڑھائی بھی جانتے تھے.اور عرب عموما عبرانی سے ناواقف تھے مگر حضرت عمر عبرانی سے بھی واقف تھے.

لڑائی بھڑائی کے ماہر ، نہایت طاقتور اور بہادر تھے..ہجرت کے وقت جب تمام مسلمان کفار کے شر سے بچنے کیلیے خاموشی سے ہجرت کر گئے.مگر عمر نے تلوار لی اور کعبہ کا طواف کیا.کفار یہ سب دیکھ رہے تھے مگر ان کے قریب آنے کی ہمت کسی کو نہیں ہو رہی تھی.پھر حضرت عمر نے کفار کے مجمعے سے مخاطب ہو کر کہا ” تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے”..مگر کسی کو اتنی ہمت نہ ہو سکی.

عدل و انصاف کے بالا دستی قائم کی.اپنے دور حکومت میں اسلام کو چند شہروں سے نکال کر ہزاروں میل دور تک پھیلا دیا.بیسیوں علاقے فتح کیے.اور ساری دنیا میں اسلام کے فروغ کی داغ بیل ڈالی.
5نومبر 644ء کو بروز جمعہ فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے شہید ہوئے.

یہاں تک تو مختصر حالات زندگی بیان کیے گئے.اب نامور شخصیات کا ان کی خدمات کا اعتراف دیکھتے ہیں.صرف مسلمان ہی نہیں عیسائی و یہودی مورخین بھی ان کے معترف ہیں.

حضور کا ارشاد ہے کہ ” اے عمر ، شیطان تمہیں دیکھتے ہی رستہ کاٹ جاتا ہے”
~ صحیح بخاری و مسلم

جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں جب کہ ابوبکر و عمر میرے دو زمینی وزیر ہیں۔
میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں.
~صواعق محرقہ

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں [أَكْثِرُوا ذِكْرَ عُمَرَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا ذَكَرْتُمُوهُ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ، وَإِنْ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ ذَكَرْتُمُ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى]
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کثرت کے ساتھ ذکر کیا کرو جب تم ان کا ذکر کرتے ہوتو تم عدل کا ذکر کرتے ہو اور جب تم عدل کا ذکر کرتے ہو تو تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو۔

اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔ از عبداللہ ابن مسعود ( مشکوہ )

-غیر مسلموں کی حضرت عمر کے متعلق رائے-

غیر مسلموں کی اسلام پر تحقیق پر تحقیق کا نام استشراق ہے..
استشراق کی جامع تعریف یوں کی گئی ہے..

” غیر مشرقی لوگوں کا مشرقی زبانوں، تہذیب، فلسفے، ادب اور مذہب کے مطالعہ میں مشغول ہونے کا نام استشراق ہے۔”

ان لوگوں کو مستشرقین کا نام دیا جاتا ہے..ان کی آگے مزید کئی اقسام ہیں..

معتدل مزاج مستشرقین : – ان کا مذہب اسلام تو تھا نہیں .یہ اپنے ادیان کے زیر اثر رہے اور اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا .. اور اس پر لکھا.انہوں نے نہایت مناسب انداز میں لکھا اور نبی اکرم و صحابہ کی خدمات کا بارہا اعتراف کیا..ان میں کاسن دی پرسیول ، مائیکل ہارٹ ، ول ڈیورنٹ اور کیرن آرم سٹرانگ جیسے مصنفین شامل ہیں.

متعصب مستشرقین : – انہوں نے بھی اسلام کا گہرا مطالعہ کیا..اور اسلام پر کڑی تنقید کی.تنقید تک تو درست ، انہوں نے بے جا تنقید کی اور اسلام کے متعلق کافی غلط فہمیاں پھیلائی..ان میں کیمون ، سر ولیم میور ، جارج سیل اور گولڈ زیہر جیسے مصنفین شامل ہیں.

عربی سے ناواقف مستشرقین :- یہ وہ لوگ تھے جو عربی سے واقف نہیں تھے.اور تاریخ اسلام کی ترجمہ شدہ کتب سے دیکھ کر تواریخ لکھیں.لہذا ایسے لوگ اسلام کی اصل روح سے واقف نہ ہو سکے..ایڈورڈ گبن اس کی واضح مثال ہے.

نہایت عمدہ اور عالم مستشرقین : – یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اسلام کا مطالعہ انتہائی تفصیل سے کیا.عربی کتب کے انبار کے انبار پڑھے.اور نہایت دقیق تحقیق پیش کی اور مسلم علما کو مصیبت میں ڈال دیا.ان کی تعداد بہت کم ہے.ان میں گولڈ زیہر ، جارج سیل ، سر ولیم میور شامل ہیں..گولڈ زیہر اور سر ولیم میور کو دشمن اسلام تصور کیا جاتا ہے.ان دونوں صاحبان کی اسلام پر تنقید نہایت سخت اور گہری ہے..

اس تمہید کا مقصد غیر مسلم مصنفین کے متعلق آگاہی دینا تھا.تا کہ حضرت عمر کے متعلق ان کی رائے کی وضاحت ہو جائے.

~ سر ولیم میور

اوپر بتایا جا چکا ہے کہ سر ولیم میور بھول کر بھی کسی اسلامی شے کی تعریف نہیں کرتے.ہر چھوٹی چھوٹی بات پر تند و تیز تنقید ان کا مشغلہ ہے.بقول شبلی و دیگر علما سر ولیم میور بدترین مخالف اسلام ہے.
سر ولیم میور حضرت عمر کے متعلق لکھتے ہیں کہ

” اس طرح عمر کی وفات ہوئی جو محمد کے بعد اسلام کا سب سے اہم نام ہے..عمر کے صبر و استقلال ، دانائی ، سیاسی بصیرت و جرات و بہادری سے دس سال کے اندر ہی فتوحات کا دائرہ شام ، مصر و ایران کو پار کر گیا..عمر کی شخصیت کا مختصر خاکہ یہ ہے کہ وہ سادگی اور دیانت داری کی عمدہ مثال تھے.ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کا یادگار دور ہے.ابوبکر کی وفات کے بعد انہوں نے سلطنت اسلامیہ کو سنبھالنے کا صحیح معنوں میں حق ادا کر دیا.غصے کے تیز اور بہادر تھے.قبول اسلام سے قبل بھی عرب بھر میں مقبول تھے.بدترین دشمن اسلام تھے.مسلمان ہونے کے بعد ساری زندگی اسلام کیلیے وقف کر دی.ہر وقت تلوار میان سے نکالنے کیلیے تیار رہتے.عمر نے ہی بدر کے موقع پر محمد سے کہا تھا کہ سب جنگی قیدیوں کو قتل کرنے کی اجازت دیں.(مگر حضور نے سب کو معاف کر دیا).مگر جب مسند نشیں ہوئے تو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوا.عادل تھے.ناانصافی کا کوئی بھی واقعہ ان کے متعلق دستیاب نہیں.
.سپہ سالار و گورنر وہ اپنی پسند سے نہیں لگاتا تھے.بلکہ ان کی قابلیت کی بنا پر لگایا جاتا تھا.مدینہ کے بازاروں اور گلیوں میں گشت کرتے اور کسی کی غلطی کی سزا اسے موقع پر ہی دیتے.اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ” عمر کی تلوار سب سے زیادہ خطرناک ہے ” ..اس سب کے باوجود وہ نہایت سخی ، رحمدل اور پرہیز گار تھے.ان کی ایثار و خلوص کے کئی واقعات دستیاب ہیں..خاص طور پر بیواوں اور یتیموں کی مدد کرنا شامل ہے.”

بحوالہ :

The Caliphate: Its Rise, Decline and Fall from original sources – Sir William Muir

ایڈورڈ گبن لکھتے ہیں کہ

” عمر جرات و ایثار کا مجسم پیکر تھے.ان کی حکمت عملی کی وجہ سے سلطنت اسلامیہ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا.ان کی شخصیت نہایت سادہ تھی.پانی ام کا مشروب اور کھجوریں ان کی خوارک تھی.جو کی روٹی کھاتے.اور ان کےلباس میں بارہ سوراخ تھے.محلوں کی مسہریوں پر سونے کی بجائے مسجد نبوی کی سیڑھی کر غریبوں اور مسافروں کے ساتھ سو جاتے ”

بحوالہ :

The History of the Decline and Fall of the Roman Empire
– Edward Gibbon

پروفیسر فلپ کے ہٹی لکھتے ہیں کہ

” سادہ ، پرہیز گار اور ہنرمند عمر لمبے تڑنگے، بھرپور جسم کے مالک ، سر سے گنجے ، بالکل ایک عرب بدو شیخ جیسا حلیہ رکھتے تھے..قبول اسلام کے بعد متقی اور پرہیز گار ہوئے کہ ظاہری وضع قطع سے بے نیاز ہو گئے.فرش پر پتے بچھاتے اور اس پر سو جاتے.پھٹے پرانے کپڑے پہن کر بازار میں نکل آتے.مجرموں کو کڑی سزائیں دیتے.مظلوموں اور غریبوں کی فریاد رسی کرتے…..تاریخ اسلام کے نہایت نازک موڑ پر ایک ایرانی غلام کے ہاتھوں قتل ہوئے”

بحوالہ :-

History of Arabs
~ Professor Philip K Hitti

مائیکل ہارٹ جو تاریخ کی تین کتب لکھ چکے ہیں.ان کی کتاب
” The 100: A Ranking of the Most
Influential Persons in History”
بیسٹ سیلر کتاب ہے..جس کی پانچ لاکھ سے زائد کاپیاں بک چکی ہیں.اور بیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے.اس میں انہوں نے حضرت عمرکو اکیاون نمبر پر رکھا ہے..یعنی تاریخ عالم کے وہ اکیانویں انسان تھے جنہوں نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا.

مائیکل ہارٹ لکھتے ہیں کہ

” عمر مسلمانوں کے دوسرے اور بلاشبہ سب سے عظیم خلیفہ تھے.محمد کی ہی طرح مکہ میں پیدا ہوئے..تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے..مگر 586 عیسوی کے قریب کا زمانہ تھا.اسلام کے سخت ترین مخالف تھے.اور محمد کے بدترین دشمن ، پھر اسلام قبول کر لیا.اور اپنی ساری توانائی اسلام کیلیے صرف کی.محمد کے قریبی دوست بن گئے.اور بہت سے معاملات میں محمد کو مشورے دینے لگے.اور تا دم وفات محمد ، محمد کے ساتھ رہے.
محمد کی وفات کے بعد عمر نے ابوبکر کی خلافت کے حق میں ووٹ دیا..اکثریت کا فیصلہ ابوبکر کے حق میں تھا.لہذا پہلے خلیفہ ابوبکر منتخب ہوئے.ان کا دور بھی شاندار تھا.مگر وہ بمشکل دو سال تک مسند خلافت پر رہ سکے..اور وفات پاگئے.
ابوبکر کی وفات کے بعد اکثریت کی حمایت سے عمر خلیفہ بنے.634 سے لے کر 644 تک خلافت کی.پھر ایک ایرانی غلام کے ہاتھوں مارے گئے.اور اکثریتی حمایت سے عثمان خلیفہ بنے.
عمر کے دور میں عربی تاریخ کی سب سے عظیم فتوحات ہوئیں..اپ کی نگرانی میں عرب فوجوں نے شام اور فلسطین پر چڑھائی کر دی.جو کہ بازنطینی سلطنت کا حصہ تھے.یرموک میں عربوں کو فتح ہوئی.اگلے سال ہی دمشق کی فتح ہوئے..دو سال بعد یروشلم پر بھی مسلمان حکومت قائم ہو گئی. 641 میں عمر کی فوجوں نے سارا شام اور فلسطین ، فتح کر لیا..مصر پر چڑھائی کی اور تین سال میں مصر بھی فتح ہو گیا.عربوں کی عراق پر یلغار اور جنگ قادسیہ سے ساسانی سلطنت اختتام پذیر ہوئی..ایران و عرا ق پر بھی اسلامی نظام قائم ہو گیا.عمر کی وفات تک ایران تقریبا مکمل فتح ہو چکا تھا.عمر کی وفات کے بعد بھی کچھ عرصہ فتوحات کا سلسلہ رکا نہیں.اور مغرب میں عرب افواج شمالی افریقہ کی جانب بڑھتی چلی گئی.ایران کے بیشتر عوام نے اسلام قبول کر لیا.اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ زبردستی اسلام کسی پر نہیں تھوپا گیا..یہ مذہب کے دفاع کی جنگیں تو نہیں تھیں مگر کسی بھی جگہ اسلامی نظریات کو صرف نظر نہیں رکھا گیا.کسی بھی انسان کو زبردستی مسلمان نہیں کیا گیا.
عمر کی سیاسی بصیرت متاثر کن ہے.میرا خیال ہے کہ اگر عمر نہ ہوتے تو آج اسلام کا دائرہ کار اتنا وسیع ہونے کی بجائے مدینہ یا مخصوص عرب علاقوں تک ہی رہتا.عمر کے دور حکومت میں عراق ، ایران ، آذربائیجان ، آرمینیا ، جارجیا ، شام ، اردن ، فلسطین ، لبنان ، اسرائیل ، مصر ، ترکمانستان ، افغانستان کے چند علاقے ( جو ساسانی سلطنت کے زیر اثر تھے ) اور جنوب مغربی پاکستان ( موجودہ ) تک فتح کا دائرہ پھیلا..یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب جنگیں عمر نے خود لڑ کر جیتیں.اگرچہ مختلف افواج کے ، مختلف مہموں کے سپہ سالار مختلف صحابہ تھے..مگر عمر کا کردار مسلم ہے..اور نہایت متاثر کن ہے.میری نظر میں عمر جولیس سیزر اور charlemagne سے بھی بڑا فاتح ہے.”
بحوالہ :-
The 100: A Ranking of the Most
Influential Persons in History

Advertisements
julia rana solicitors

~ Michael H Hart.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply