گوادر کا سمندر اکتوبر سے لے کر فروری تک سردیوں کے دن آتے ہی کافی حد تک پُرسکون ہو جاتا ہے۔ لیکن موسم کے تیور بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کبھی اچانک آسمان کی رنگت بدلتی ہے اور شمال کی جانب تیز ہوائیں چلنی شروع ہوتی ہیں اور پھر آسمان پر کالی گھٹائیں چھا جاتی ہیں اور پھر زور دار بارش شروع ہوتے ہی جو ماہی گیر اپنے گھروں میں پُرسکون بیٹھے ہیں، وہ بھاگتے ہوئے ساحلِ سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس وقت کشتیوں کے لنگر ٹوٹ جاتے ہیں۔ وہ کشتیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت باہر نکالنے کی کوششوں میں جُت جاتے ہیں۔ اگر یہ ہوائیں رات کو چلتی ہیں تو ان کشتیوں تک پہنچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اکثر ساحل پر بڑے بڑے پتھروں سے ٹکرا کر ان کی کشتیاں پاش پاش ہو جاتی ہیں۔ اس دوران کچھ ماہی گیر ساحل سے دور گہرے سمندر میں شکار پر ہوتے ہیں، تو تیز طوفانی ہواؤں سے ان کی کشتیاں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتیں۔ وہ ساحل تک پہنچنے سے پہلے پہلے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ لاکھوں کی کشتیاں قیمتی انجن قیمتی جال بھی سمندر بُرد ہوجاتے ہیں۔
گہرے پانی میں ڈوبنے سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی قیمتی املاک اور اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے ہیں۔ کچھ خوش قسمت سمندر کی بپھرتی لہروں کا مقابلہ کر کے کنارے تک بہت کم ماہی گیر بچ کر اپنے گھروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا PDMA پاکستان ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، حکومتِ بلوچستان اور محکمہ فشریزاس سلسلے میں ہماری امداد میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔
گوادر میں ماہی گیر اتحاد، ماہی گیروں کی ایک منظم تنظیم ہے۔ ویسے تو کئی چھوٹی چھوٹی ماہی گیر تنظیمیں بنتی ہیں جن کو سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ وہ دیرپا ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے ماہی گیر اتحاد اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ مل کر ماہی گیروں کے مسائل پر مکمل یکجہتی کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے اور وقتاًفوقتاً وہ گوادر پریس کلب، کبھی ڈھوریہ اور کبھی پدی زر کے مقام پر احتجاجی جلسے اور پریس کانفرنس کرتے رہتے ہیں۔
کچھ دن پہلے انھوں نے ایک بار پھر اپنے وہ مطالبات دہرائے جو 22 مارچ 2002 میں جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے گوادر پورٹ کا سنگِ بنیاد رکھتے ہی اس کی خصوصی افادیت بیان کرتے ہوئے اس پورٹ کو اس علاقے کا معاشی حب قرار دیا تھا، ساتھ ہی ماہی گیروں کو خوش حالی کی نوید سنائی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ پورٹ کی تکمیل تک ان کے بچوں کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا جائے گا، ٹیکنکل سینٹر بنائیں گے، وہ ایک دن ہنر مند ہو کر اسی پورٹ کو چلانے کے قابل ہوں گے۔ اس پسماندہ علاقے میں بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔
لیکن ماہی گیر کہتے ہیں 18 سال گزنے کے باوجود آج ہم محسوس کرتے ہیں یہ سب باتیں سراب ثابت ہوئیں۔ پورٹ تو بن کر تیار ہو چکا ہے، لیکن ہمارے لوگوں کو نہ روزگار ملا اور نہ وہ ہنرمند ہوئے، نہ وہ اپنے آباواجداد کی زمینوں پر رہنے کے قابل ہیں، بلکہ ہمیشہ یہ خدشات رہتے ہیں کہ کب ان کو یہاں سے ہٹانے کا منصوبہ بنے۔ ان کا وہ زرخیز سمندر و ساحل، پورٹ کا حصہ بن چکے ہیں جہاں وہ قیمتی مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ اور اپنے ہی شہر میں سکیورٹی کے نام پر ہمیں آتے جاتے کئی سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں، ہم ان کے ساتھ اب ان حالات میں جی رہے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پورٹ اتھارٹی کی جانب سے ٹیکنیکل اور میرین کی تربیت کے وعدے بھی پورے نہ ہو سکے۔ نہ گوادر پورٹ اتھارٹی میں اور نہ گوادرڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ماہی گیروں کے بچوں کو روزگار دیا جاتا ہے۔ ہزاروں ماہی گیروں کے پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں لیکن غیر ضلعی لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ گوادر کے ماہی گیر ایسا لگتا ہے کہ ریڈ انڈین ہیں، ان کی قربانیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جیسے ہماری اہمیت ہی نہیں۔
ان کے بقول ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہر سال پاکستان کو مچھلی کی ایکسپورٹ پر اربوں کا زر مبادلہ دیتے ہیں۔ ماہی گیروں کے علاقے گوادر کی قدیم بستیوں میں شمار ہوتے ہیں، جہاں پر معمولی بارش سے کئی کئی دنوں تک گلیاں اور کھیل کے میدان کیچڑ اور پانی کے جوہڑ اور جھیل کا منظر پیش کرتے ہیں۔ گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (GDA) نے اربوں روپے سے پانی کی نکاسی کے لیے جو سیوریج لائن بنائی ہیں، وہ ناکام ہو چکی ہیں۔
دوسری جانب ماہی گیروں سے وعدے کے مطابق انھیں ایکسپریس وے کے تیزی سے تعمیر ہونے والے منصوبے کے تین اہم مقامات پر گزرگاہیں بنا کر دی جائیں گی، لیکن ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود گزرگاہوں کا کام بھی التوا کا شکار ہے۔ اسی طرح ویسٹ بے میں بریک واٹر کا نام و نشان تک نہیں۔ ماہی گیروں کے مطابق وہ اب بھی بنیادی سہولتوں جن میں علاج معالجہ، تعلیم و تربیت، بجلی،گیس، پانی کے لیے جن سہولتوں کے حق دار ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو محروم سمجھتے ہیں۔
جی ڈی اے کا ہسپتال ان کے علاقے سے کافی دور ہے۔ اسی طرح ڈھوریہ، واپڈا گوتری وارڈ اور کماڑی وارڈ کے قدیم علاقوں کے ماہی گیر ایک مکان میں کئی خاندان سر چھپانے پر مجبور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ ہمیں ہر حکومت ماہی گیر کالونی کا خوش نما خواب تو ضرور پیش کرتی ہیں لیکن عملی اقدام نظر نہیں آتے ہیں۔
ماہی گیروں کو شکایت ہے حکمرانوں سے، جی ڈی اے اور جی پی اے سے اور اب تو وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ماہی گیروں کے دم سے اس شہر کی رونق ہے۔ اس شہر کی معیشت کا انحصار بھی ان ماہی گیروں سے ہے۔ اگر ماہی گیری کی صنعت پر کوئی افتاد آئے تو اس شہر کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ پچھلے سال وہ کئی دنوں تک ملّا موسی موڈ پر احتجاجی کیپ لگا کر بیٹھے کہ ان کے مسائل پر توجہ دی جائے گی۔ گوادر کے ماہی گیروں کے مطابق انھیں مجبور کیا گیا اور طفل تسلیاں دے کر احتجاج سے یہ کہہ کر اٹھایا گیا کہ آپ کے مسائل جلد حل ہوں گے، ایکسپریس وے کے منصوبے میں تبدیلی لائی جائے گی۔ مطالبات مان لینے کی شرط پر انھوں نے اپنا احتجاج منسوخ کیا لیکن مؤخر ہر گز نہیں کیا، اب جب انھیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے، اس لیے وہ پھر سے احتجاج پر مجبور ہوں گے۔
مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں