خود بہتری (self-improvement) کا کھیل/ند ااسحاق

مجھ سے سب سے زیادہ یہی سوال پوچھا جاتا ہے کہ میں کونسی کتابیں پڑھتی ہوں، یا پھر کتابوں کا ریویو لکھنے کے لیے کس طرح سے کتابوں کا مطالعہ کرتی ہوں؟ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ اتنی زیادہ کتابیں کیسے پڑھ لیتی ہیں؟

میں نے آج تک جتنی بھی کتابیں پڑھی ہیں یا پھر جو بھی تھوڑا بہت علم ہے یہ سب پچھلے تین سالوں میں انجام پایا ہے۔ اس سے پہلے مجھے کتابوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور نہ فلسفہ یا نفسیات کی گتھیاں سلجھانے سے کوئی سروکار تھا۔

ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جب فطرت اس پر مہربان ہوکر اسے ضرورت سے زیادہ تکلیف دینے لگتی ہے، فطرت انسان کو بے آرام (uncomfortable) کرکے یہ بتاتی ہے کہ وہ جن مسائل سے نظریں چرا رہا ہے وہ مسائل حل ہونے کے طلبگار ہیں اور اگر انہیں حل نہیں کیا تو دنیا کا کوئی آرام یا پلیژر بھی اس بےچینی یا تکلیف کو ختم نہیں کرسکتا, اسے نفسیات کی زبان میں “انقطاع” (breakdown) کہتے ہیں، اکثر لوگ فطرت کی جانب سے اس انمول تحفے کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اپنے جذبات اور مسائل کو دباتے یا نظرانداز کرتے رہتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو بریک ڈاؤن کی آواز کو سن پاتے ہیں۔

عموماً لوگ کتابوں کی جانب اس لیے رخ کرتے ہیں کہ انہیں علم کی تلاش ہوتی ہے، لیکن مجھے ایسی کوئی تلاش نہیں تھی، مجھے بس اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے سے سروکار تھا۔ میں نے مسائل کا حل کتابوں میں کیوں ڈھونڈنا چاہا؟؟
وہ اس لیے کہ ہمارے ارد گرد ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں جن کی عقل یا دانش سے کچھ سیکھا جاسکے (ہمارے پاس رول ماڈلز نہیں ہیں)، جو لوگ خود ہی اپنی زندگی میں الجھے ہوئے ہوں وہ آپ کو معاملات کو دیکھنے کا نیا رخ یا زاویہ نہیں دے سکتے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے ارد گرد والوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر کتابوں کے ذریعے ان لوگوں کے تجربات کو پڑھنا شروع کیا جو میری طرح کے مسائل سے کبھی دوچار تھے۔
یہ تو تھی کتابیں پڑھنے کی وجہ جو میں بے بتا دی!

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو میرے لکھے ہوئے ریویو کو مختلف بناتی ہے (آپ کی نظر میں)؟ 
اس جادوئی چیز کا نام ہے “عمل” (action)……
میں جب بھی کوئی نئی ڈائیٹ، نئی تھراپی یا نیا یوگا یا پھر میڈیٹیشن یا پھر اچھے اور معنی خیز رشتے بنانے کے متعلق کوئی بھی نئی بات پڑھتی تو اس پر عمل کرنے (apply) کی کوشش ضرور کرتی۔ مجھے نئے نظریات کو پڑھنے اور پھر ان پر اپنی سکت اور حالات کے مطابق عمل کرنے میں بہت مزہ آتا ہے، انسان ایک متجسس (curious) مخلوق ہے اور ہمیں نیا پن (novelty) بہت پُرکشش لگتا ہے۔ کچھ لوگ اس نئے پن کو محض سیکس، ہمسفر، افیئر یا رومانوی رشتوں تک محدود رکھتے ہیں، میڈیا اور کاروبار بھی اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ زندگی میں سب سے زیادہ ضروری “پیار” ہے اور وہ بھی فینٹسی سے بھرپور اور انتہائی خود غرض قسم کی محبت جو آپ کو اپنے رشتوں پر ضرورت سے زیادہ منحصر کردیتی ہے جس سے آپ کی تکلیف (suffering) میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن رشتے (relationships) آپ کی زندگی کا صرف ایک حصہ ہیں، البتہ زندگی کئی حصوں کا ملاپ ہے۔

جب آپ کسی بات پر عمل کرتے ہیں تو آپ اسے تجربہ کرتے ہیں، اور جب آپ خود کسی تجربے سے گزرتے ہیں تو پھر اس بات کو گہرائی میں بیان کرنا آپ کو آسان لگتا ہے۔ فلسفی ایلن واٹس کہتے ہیں کہ مشہور سائیکاٹرسٹ کارل یونگ (Carl Jung) نے “شیڈو” (شیڈو کارل یونگ کا سب سے بہترین کام ہے) اپنے کسی مریض میں نہیں بلکہ خود اپنے آپ میں دیکھا تھا اور پھر وہ اسے سمجھتا رہا اور دوسروں کو بھی سمجھنے میں مدد کرتا رہا۔

میرا اپنا ذاتی تجربہ (جو کہ ضروری نہیں کہ درست ہو یا آپ کے لیے کارآمد ہو) یہ کہتا ہے صرف پڑھنے کے لیے یا دماغ کو انفارمیشن سے بھرنے کے لیے اگر کتاب پڑھی جائے تو ایسی انفارمیشن کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا، ایسی نالج یا انفارمیشن آپ کے ذہن پر محض بوجھ کی مانند ہوتی ہے، آپ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے اسکا پرچار کرتے ہیں لیکن عمل نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے اندر صرف کھوکھلا پن ہوتا ہے۔ آپ صرف اس علم کا پرچار کرتے ہیں لیکن آپ نے اسے کبھی جیا ہی نہیں ہوتا۔

اس بات کا اندازہ مجھے اس طرح سے ہوا کہ جب میں اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر کتابوں، یوگا، میڈیٹیشن یا مختلف سرگرمیوں کی تصاویر لگاتی تھی تو اس کے پیچھے کی نیت “دکھاوا” یا پھر “توجہ” حاصل کرنا ہوتی تھی عموماً، میں پرچار تو کرتی تھی لیکن اس علم کو گہرائی میں جینے سے کئی میل دور تھی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ دکھاوا تب کریں جب تک آپ اس دکھاوے کی حدوں کو تجاوز (transcend) نہ کرلیں (fake it til you make it)- تجاوز کرنے کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے جب آپ کو سمجھ آجاتی ہے کہ کیا ‘اہم’ ہے اور کیا ‘غیر اہم’۔ یہ سب قدرتی طور پر اپنے وقت پر انجام پاتا ہے اور یہ انمول سبق میں نے ٹاؤازم (Taoism) کے فلسفے سے سیکھا کہ کس طرح خواہ مخواہ خود پر جبر کرنا اور وقت سے پہلے ہونا آپ کے سارے معاملات بگاڑ دیتا ہے۔

خود-بہتری (self-improvement) کا کتاب اور ریویو سے تعلق:
ہم سب بچپن میں کھیل کھیلتے تھے، لیکن بڑے ہوکر ہم کھیلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی کھیل زیادہ عام ہے بالغ لوگوں میں تو وہ سیکس اور رومانوی رشتوں کا کھیل ہے۔ لیکن خود-بہتری کا کھیل بہت ہی دلچسپ ہوتا ہے، بالکل کسی مشہور ویڈیو گیم کی طرح۔ میں ایک بہت عام سی گھریلو خاتون ہوں، میری زندگی یکسانیت (monotonous) سے بھرپور ہے، میں نے اس یکسانیت کو ختم کرنے لیے اپنے دماغ میں خود-بہتری (self-improvement) نامی ایک گیم انسٹال کی ۔ یہ گیم بہت مشکل لیکن حیران کُن حد تک دلچسپ ہے، شروع کے کچھ لیول بہت مشکل اور بورنگ ہوتے ہیں، اگر آپ نے وہاں ہار نہیں مانی اور بار بار آؤٹ ہونے کے باوجود بھی اس کھیل کے ساتھ چپکے رہے تو پھر مزید اوپر کے لیول پر جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ہر انسان اس کھیل کو مختلف انداز میں کھیلتا ہے اور ہر نئے لیول پر پہنچنے میں مختلف تکنیک اور اوزار (tools and techniques) کا سہارا لیتا ہے، اپنے اصول خود طے کرتا ہے اور پھر ان کی پاسداری بھی کرتا ہے۔ اس کھیل میں کتابیں (جن میں دوسرے لوگوں نے اپنے کھیلنے کے طریقے کو عوام کے ساتھ شیئر کیا ہوتا ہے) آپ کی رہنمائی کرتی ہیں جس سے آپ کو کھیل کو سمجھنے میں زیادہ دقّت پیش نہیں آتی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کتاب کا اچھا سا ریویو کیسے دینا ہے ؟

آپ کچھ دیر کے لیے غور کریں کہ آپ کونسے کھیل میں ایک ناکام یا تھکے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ دولت، سیکس، رشتے، کام، بزنس، خود-اعتمادی، خود-توقیری، جذبات، ذہنی صحت، جسمانی صحت اور زندگی کے مختلف حصوں میں کس جگہ آپ کا کھیل اچھا نہیں ہے؟؟ کہاں آپ بار بار آؤٹ ہورہے ہیں؟؟ اب اس کھیل کے لیے مختلف کتابوں اور آرٹیکل سے رجوع کریں، اور آہستہ آہستہ اس پر عمل بھی کریں، ایک وقت ایسا آئے گا جب آپ کو محسوس ہونے لگے گا کہ آپ کا لیول بڑھ رہا ہے، آپ کو امید نظر آنے لگے گی، جب امید نظر آئے گی تو آپ مزید گہرائیوں میں جانے لگیں گے اور یوں آپ اس کھیل کے ایک بہتر کھلاڑی بننے کے سفر پر گامزن ہوگئے ہیں اور اب آپ ایک بہترین ریویو لکھ سکتے ہیں!

میں ایک اچھی لکھاری نہیں ہوں، اور نہ ہی میں نے کبھی یہ سوچا تھا کہ میں آرٹیکل لکھ کر لوگوں کو اپنی ذہانت اور علم کے جلوے دکھاؤں گی، دنیا میں بہت ذہین اور عظیم لوگ موجود ہیں اس قسم کے جلوے دکھانے کے لیے، میں ایک عام انسان ہوں اور مجھے بس اپنی زندگی میں چل رہے ڈراموں اور مسائل کو کم کرنا تھا اور لکھنا بھی میری مختلف پریکٹس اور تھراپی میں سے ایک عمل (action) تھا۔ بیشک لکھنا بہت کارآمد مشق (practice) ہوتی ہے۔

ایک ضروری بات۔۔۔
جب آپ خود-بہتری والے کھیل کو کھیلنا شروع کرتے ہیں تو وقت کے ساتھ آپ کی کتابوں کا چناؤ (selection) تبدیل ہونے لگتا ہے، میں آج کل جو کتابیں پڑھ رہی ہوں وہ پچھلی پڑھی ہوئی کتابوں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ آپ نئے لیول پر پہنچ گئے ہیں، لیکن یاد رکھیے ہر لیول کا اختتام اپنے وقت پر انجام پاتا ہے، وقت سے پہلے اور جبر کرکے آگے بڑھنے کا صرف نقصان ہے۔ زندگی کے کھیل میں ایک کمرہ فیل ہونے (failures) کے لیے بھی بنالیں، فیل ہونے کا بھی اپنا الگ ہی ایک لطف ہے اور اپنی ناکامیوں پر زوردار قہقہے لگانا اور خود کی بیوقوفیوں پر ہنسنا آپ کو جنسی تعلق (sex) سے بھی زیادہ پلیژر دے سکتا ہے، جس طرح وڈیو گیم میں آپ آؤٹ ہوتے رہتے ہیں ویسے ہی خود-بہتری کے کھیل میں بھی ہوتے رہیں گے، زیادہ سنجیدہ ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں!!

ایک اہم نکتہ جاننا بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ جب ہم خود-بہتری کے سفر پر نکلتے ہیں تو اپنے ارد گرد والوں سے کئی لیول اوپر آجاتے ہیں اور یہ سوچ اکثر لوگوں میں عجیب سی “احساس برتری”لے آتی ہے، اکثر دانشوروں کو عام لوگ جاہل اور گوار لگتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ آپ کسی بھی انسان سے برتر یا کمتر نہیں ہوتے، البتہ آپ لوگوں سے زیادہ “آگاہ” (aware) یا پھر “ہوش مند” (conscious) ہوتے ہیں، لیکن یہ ہوش مندی آپ کے لیے فائدہ مند ہے، پر یہ آپ کو کسی طور بھی دوسروں سے برتر نہیں بناتی۔ برتری کا نقصان دوسروں کو نہیں بلکہ آپ کے اپنے شعور (consciousness) کو ہوتا ہے، گوتم بدھا نے بصیرت (enlightenment) حاصل کرنے کے بعد لوگوں کو جاہل کہنا یا دھتکارنا شروع نہیں کردیا تھا، اس نے اپنی ذات میں ہمدردی (compassion) کو اجاگر کیا ان لوگوں کے لیے جو جاگ کر بھی نیند میں ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امید کرتی ہوں میں وضاحت کر پائی ہونگی کہ میں ریویو کس طرح لکھتی ہوں اور میری کوئی ایک پسندیدہ کتاب نہیں جسے میں تجویز کرسکوں، میں علم کی پوجا نہیں کرتی بلکہ اسے اپنی بہتری کے لیے استعمال میں لانے کی معمولی سی اور کبھی کبھار ناکام سی کوششیں کرتی رہتی ہوں کیونکہ یہ کھیل زندگی کو دلچسپ بناتا ہے، بیشمار لکھاریوں کے کھیل سے سیکھ کر میں اکثر انکا شکریہ ادا کرتی ہوں، لیکن عمل بہت ضروری ہے، اس سب کو ایک گیم کی طرح کھیلیں اس میں بہت تفریح ہے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خود بہتری (self-improvement) کا کھیل/ند ااسحاق

  1. بہت اچھی تحریر ہے۔

    آپ کی تکنیک کہ “کتابیں مسائل کے حل کے لیے پڑھیں”۔ بہت پُر اثر نقطہ ہے۔

Leave a Reply