گمانِ محبت / محمد جمیل آصف(4)

چھوٹی سی پہاڑی کی  بلندی سے سمندر کی لہروں پر چاند کی روشنی سے ایسا  لگتا جیسے بے بہا قندیلیں جگمگا رہی ہیں ۔
چودھویں کے چاند سے منور ماحول ہلکی سی فضا میں خنکی بکھیرتی ہوا میں خطاب اریج  کے ہاتھوں میں ہاتھ دئیے پگڈنڈی سے اترتا ہوا خود کو دنیا کا خوبصورت ترین  انسان تصور کر رہا تھا ۔۔

خوبصورت احساسات سے لبریز ان الفاظ کو ترتیب دیتا جو وہ اس ماحول میں اریج  کو عرصہ سے بتانا چاہتا تھا کہ اس کی حیثیت اس کی زندگی میں کتنی ہے وہ اس کے لیے کتنی اہم ہے ۔۔۔
اس کے خواب، الفاظ، شاعری اور لفظوں کی مخاطب کوئی اور نہیں وہ ہی ہے ۔ یونیورسٹی میں پڑھے مشاعرہ میں اس کی نظموں میں موجود کردار کوئی اور نہیں وہ ہے ۔
“اریج”
اس نے  آہستہ سے اسے پکارا
“جی”
اور رک کر اس کے خاموش چہرے کو غور سے دیکھنے لگی جس پر کچھ تذبذب، الجھن صاف نمایاں تھی
“بہت عرصے سے میں ایک الجھن کا شکار ہوں، کچھ اندیشے ہیں جو مجھے ان کے  اظہار سے  روکتے ہیں جو میری روح کی گھٹن کے باعث ہیں”
حیران کن تاثرات کے  ساتھ وہ اسے دیکھتی ہوئی بالآخر ساحل تک آ گیا، بچوں سی شوخی کے ساتھ
“خطاب تمھیں پتہ ہے مجھے کیا پسند ہے”
سب لفظ، تمہید ہوا میں تحلیل ہوئے اور بس یہی کہہ پایا
” کیا؟ ”
اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا جس پر چاند کی کرنیں اپنا عکس ڈال رہی تھیں ۔
” لہروں سے کھیلنا”
اور ہاتھ چھڑوا کر دور پانیوں میں چلی گئی
خطاب دیکھتا رہا اور اس سے مخاطب ہوا
” چاند کی چودھویں رات کو
جب سمندر میں پیدا ہوتے مدوجزر سے بھپری لہریں
سرکشی کے ساتھ ساحل سے ٹکرا رہی ہیں
میرا دل اس وقت ڈوبنے لگتا ہے
جب تم ساحل سے سمندر کے کنارے جانے لگتی ہو میرا ہاتھ جو تمھارے ہاتھ کی گرفت میں تھا جسے تمھارے بجائے میری گرفت میں ہونا چاہیے تھا چھوڑ کر لہروں سے اٹھکیلیاں کرنے لگتی ہو
پس منظر میں بلند ہوتی لہروں کو دیکھ کر میرے سانس رکنے لگتے ہیں
میری آوازیں لہروں کے شور میں دب جاتی ہیں
قدم بھاری پڑنے لگتے ہیں جو تمھیں جلدی سے تھامنے کے لیے اٹھتے ہیں
تیز ہوتی ہوا سے تمھاری اڑتی  کالی زلفیں
چاند کی پڑتی روشنی سے  روشن ہوتا تمھارا چہرہ
الگ میرے دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کرنے لگتا ہے
سیاہ رات اور آسمان پر حسین  چمکتا چاند
اور
زمین پر ساحل کنارے لہروں سے کھیلتی تم
بکھری زلفوں اور اس میں چمکتا حسین چہرہ
کیا حسین مماثلت ہے
کائنات کی  دلکشی بڑھنے لگتی ہے ”
افسردہ چہرے کے ساتھ سوچنے لگا کاش یہ ہوا میرے ان جذبات کو تمھاری سماعتوں سے آشنا کردے میری محبت تمھارے  دل کی زمین میں کونپل بن کر پھوٹے ۔

ایک دم اسے گھٹن کا احساس ہونے لگتا ہے پسینے سے شرابور جسم تیز ہوتی دل کی دھڑکن کے ساتھ ایک دم بیٹھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ تو صرف خواب تھا ۔
“آہ”
غٹا غٹ پانی کا گلاس چڑھاتے  خود کو پرسکون کرتے ہوئے ایک ہی چیز ہمیشہ کی طرح اس کے ذہن میں گونجنے لگتی ۔
“کبھی یہ حقیقت ہو پائے گی؟”
اور خالی ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں پھیلی لکیروں میں نظریں گاڑے کچھ تلاشنے لگا ۔گو کہ وہ دست شناسی پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتا تھا لیکن دل کے ہاتھوں مجبور انسان اپنے عقائد کو بھی بعض اوقات متزلزل کر بیٹھتا ہے
“ایسا کب تک چلتا رہے گا ”
سیاسی حالات دن بدن بگڑتے جا رہے تھے معاشرے کے مختلف طبقات میں واضح تفریق اب کھل کے سامنے آنے لگی ۔شطرنج کے کھلاڑی اپنے مہروں کے ساتھ صف بندی کرکے طاقت کے پلڑے کا جھکاؤ اپنی جانب کرنے کے لیے مختلف چالیں آزمانے لگے ۔
اور اس سارے کھیل میں شوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم اب کلیدی حیثیت اختیار کرچکے تھے ۔بیانیے کی جنگ میں فل حال جسٹس پارٹی اپنے پروپیگنڈہ ٹیم اور مختلف ٹولز سے میدان میں فوقیت حاصل کر چکی تھی ۔
اسی تناظر میں اگلی صبح یونیورسٹی میں معمول سے ہٹ کر سالانہ پروگراموں کے لیے طلبہ کو ان کی  قابلیت دیکھ کر مختلف ذمہ داریاں سونپی جا رہی تھیں ۔
مختلف موضوعات پر مباحثہ کے لیے  مخالفت اور حامی نظریات کے لیے ایک لڑکے اور لڑکی کی جوڑی بنائی گئی ۔۔۔ شو مئی قسمت” شوشل میڈیا کے معاشرے پر اثرات” کے موضوع پر ڈیپارٹمنٹ کے ڈین پروفیسر امجد نے خطاب اور اریج  کو چن لیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply