• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • بھارتی جارحیت پسندی،پاکستان سفارتی حکمت عملی میں تبدیلی لائے

بھارتی جارحیت پسندی،پاکستان سفارتی حکمت عملی میں تبدیلی لائے

طاہر یاسین طاہر
دشمن سے خیر کی توقع حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کی جانب سے اپنے پڑوسی ملکوں کی سرحدوں کے قریب جارحیت بالآخر جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ ہر عہد کے اپنے تقاضے اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں،جنگیں کبھی نیزوں ،تلواروں،سورماوں،ہاتھیوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑی جاتی تھیں، اب مگر فضا میں ہوائی جہاز اور میزائل تیرتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں زندگیاں موت سے ہم آغوش ہو جاتی ہیں۔لڑائیوں،جنگوں اور جارحیت نے کبھی بھی انسانیت کو آرام نہیں دیا۔ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ جنگوں سے باز رہا جائے۔

دنیا اس وقت بھی جنگوں کی لپیٹ میں ہے۔کہیں نہ کہیں ظالم اپنے ظلم کا اظہار کرتا نظرآرہاہے۔کشمیر،فلسطین،برما،عراق،شام،افغانستان،لیبیا میں عالمی استعماری طاقتیں کہیں خود اور کہیں اپنے کارندوں کی مدد سے امن کا دامن تار تار کرتی نظر آ رہی ہیں۔ملکوں کے بے شک مفادات ہوتےہیں اور ہر ملک اپنے مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ ملکوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں،دشمنیاں اور’’ پراکسیاں‘‘ بھی ،اپنے اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتی ہیں۔یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی بھی ہیں اور ایک دوسرے کے دشمن بھی۔دونوں ملک اپنے جنم دن سے آج تک تین بڑی جنگیں، اورکارگل لڑ چکے ہیں۔

بھارت کی یہ خواہش ہے کہ اپنے نام نہاد دنیا کی بڑی جمہوریت کے دعوے کو بزور پاکستان پر ثابت کرے اور خطےمیں اپنی طاقت کا اظہار بھی یوں کرے کہ سب سے پہلے پاکستان اس کا زیر نگیں ہو کر رہ جائے۔اپنے اس بھیانک خواب کی تکمیل کے لیے بھارت بیک وقت کئی ایک چالیں چلتا چلا آرہا ہے۔عالمی برادی کا حصہ ہونے کے ناتے اور بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کرتے ہوئے کوئی ملک علی الاعلان یہ نہیں کہتا کہ وہ پڑوسی ملک میں مداخلت کرتا ہے یا مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے۔جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی یہ بات علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مداخلت کریں گے، اس سے پہلے بھارتی وزیر اعظم نے بنگلہ دیش میں ایک تقریب کے دوران یہ فخریہ کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کو توڑنے میں بھارت کا کلیدی کردار تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ مودی کے بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کے اقرار و اظہار سے پہلے ہی پاکستان عالمی برادری کو یہ یقین دھانی کراتا چلا آرہا ہے کہ بھارت بلوچستان میں بد امنی کراتا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ بھارت میں کسی بھی نوع کا کوئی دہشت گردانہ واقعہ ہو جائے تو اس کا بلا تاخیر ذمہ دار پاکستان کو قرار دے دیا جاتا ہے۔جبکہ بعد میں بھارت اپنے الزامات کے حق میں شواہد پیش نہیں کر پاتا۔گذشتہ ماہ اوڑی میں ہونے والے حملے کے بعد تو بھارت کا جنگی جنون اپنی انتہاوں کو چھو نے لگا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں بھی دیں ۔بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا، اگرچہ پاک فوج نے جوابی کارروائی کر کے بھارت کے فوجیوں کو بھی ہلاک کیا،مگر بھارتی جنگی جنون تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔یہ پہلی بار ہوا کہ بھارت نے لائن آف کنٹرول پر توپوں کے گولے فائر کیے اور سرحدی گائوں کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا۔یہاں پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس عزم کا بارہا اظہار کیا کہ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ پاکستان اپنے دفاع سے غافل نہیں ہے۔

یہ امر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاک فوج کے کردار کو کم کرنے کے لیے دشمن یہ چاہتا ہے کہ پاک فوج کو مشرقی سرحد پر بھی مصروف رکھا جائے ۔ دفاع و عالمی سیاسی چالاکیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے حالیہ جنگی جنون کی کئی ایک عالمی،مقامی اور بھارت کی داخلی وجوہات ہیں۔نریندر مودی ایک انتہا پسندانہ رحجانات کے ہندو رہنما ہیں اور ان کی سیاست کا دارومدار ہی نفرت کا کاروبار ہے۔ یہ ان کی ترجیح نہیں کہ وہ اپنے عوام کی فلاح کا سوچیں۔دوسری بات سی پیک روٹ پہ شروع ہونےو الی تجارت ہے جس کا بھارت کو بہت رنج ہے۔اسی طرح بھارت کا ایک خواب خطے کی ایسی طاقت کے طور اظہار ہے جس پر امریکہ کو یہ اعتماد ہو کہ یہ طاقت چین کے کردار کو کم کر دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں بھارت بیک وقت کئی وجوہات کی بنا پر کئی ایک محاذ کھولے ہوئے ہے۔لائن آف کنٹرول پہ بلا اشتعال فائرنگ،پاکستان کے خلاف مسلسل الزام تراشی،سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں،عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی دھمکیاں،را کے جاسوس پاکستان بھیجنا اور تخریب کاری کروانااور اب بھارتی آبدوز کی پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش، یہ سب چیزیں بھارتی عزائم کا ثبوت ہیں۔اگرچہ پاک بھارت کھلی جنگ کے چانسز بہت کم ہیں،مگر آئے روز کی لائن آف کنٹرول پہ فائرنگ اور فوجیوں کی شہادت ،نیز بھارت کی جانب سے دیگر جارحانہ اقدامات کسی بھی نا خوشگورا وقعہ کا سبب بن سکتے ہیں۔پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، اور اگر خدانخواستہ جنگ چھڑ گئی تو ایک ارب سے زائد انسان لقمہ اجل بن جائیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کا امن بھی اس خطے کے امن سے جڑا ہوا ہے۔بھارتی جارحیت اور بلوچستان بارے اس کے موقف کو دنیا پر ظاہر کیاجائے اور اس حوالے سے پاکستان کو روایتی سفارت کاری کے بجائے ،خطے میں بھارت کی امن دشمن خواہشوں اور کوششوں کو دنیا پر ظاہر کرنا چاہیے ۔ ظاہر ہے اس حوالے سے ایک مستعد اور کل وقتی وزیر خارجہ بھی چاہیے۔حکومت پاکستان کو سارے معاملات عمر رسیدہ مشیر خارجہ کے بجائے وزیر خارجہ کے ذریعے چلانے چاہئیں۔پاکستان کو اپنی سفارتی حکمت عملی میں جارحانہ تبدیلی لانا ہو گی بصورت دیگر پاکستان سفارتی سطح پر، عالمی برادری کا ساتھ کھو دے گا، ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد تو یہ بات اور زیادہ اہم ہو چکی ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply