جے آئی ٹی رپورٹ،سفارشات اور سیاسی حیلے

جے آئی ٹی رپورٹ،سفارشات اور سیاسی حیلے
طاہر یاسین طاہر
درست اور مناسب رویہ تو یہی ہے کہ جب کیس عدالت میں زیر سماعت ہو تو اس پہ رائے زنی سے اجتناب کیا جائے۔پوری دنیا میں یہ بات تسلیم شدہ ہے۔ مہذب ممالک اور سماج اس کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ ہر چیز کے متعلق یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ابھی ارتقائی مراحل میں ہے،اور جب شباب کو پہنچے گی تو خود بخود سنبھل جائے گی۔ جیسے الیکٹرانک میڈیا کے بارے کہہ دیا جاتاہے کہ صحافت کو چونکہ آزادی کئی عشروں بعد دیکھنا نصیب ہوئی،تو معاملات کچھ عرصے تک از خود ،درست ہو جائیں گے،یہی بات جمہوریت اور جمہوری اداروں کے حق میں بھی کہی جاتی ہے،کہ ہمارے ہاں عملاً آمریت کی حکمرانی زیادہ رہی، اور سیاسی حکومتوں کو چلنے نہ دیا گیا۔
اب آہستہ آہستہ جمہوری ادارے مضبوط ہوتے جا رہے ہیں،ا ور ایک وقت میں جمہوریت خود ہی اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں چلائے گی اور معاملات درست ہو جائیں گے۔یہی بات عدلیہ کے حق میں بھی کہی جاتی ہے، کہ عدلیہ نے وکلا تحریک کے بعد آزادی کا جو لطف اٹھایا ہے،اس لطف کے بعد نظریہ ضرورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا ہے،اور یہ کہ اب عدالتوں سے عدل ہی ہو گا۔کہنے والے البتہ یوسف رضا گیلانی کی عدلیہ کے ہاتھوں رخصتی کو” ضرورتاً” بھول جاتے ہیں۔
اب چونکہ ججز بھی ایسے ریماکس پاس کرتے ہیں جواگلے دن لیڈ،یا سپر لیڈ میں جگہ بناتے ہیں، اور الیکٹرانک میڈیا کی بریکنگ نیوز ضروریات کو پورا کرتے ہیں،تو اس دیکھا دیکھی میں میڈیا کے دانشور بھی بجائے صحافتی تجزیہ کرنے کے بجائے، بسا اوقات آئینی ماہر اور قانونی رہنما کے روپ میں نظر آتے ہیں۔اسی طرح سیاسی رہنما بھی اپنی اپنی پارٹی پالیسی اور اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں کو آئینی و قانونی پیرہن میں دیکھتے ہوئے عدلیہ کے لیے از خود ہی گائیڈ لائن دیتے نظر آتے ہیں۔یہ رویہ بجا طور ایک فرسٹریٹڈ سماج کا ہی ہو سکتا ہے۔پانامہ لیکس سکینڈل ہو، یا اس سے قبل پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے دھرنے،اب عدلیہ کے کردار کی طرف نہ صرف امید سے دیکھا جاتا ہے بلکہ مختلف حیلوں سے عدلیہ کو مہمیز بھی کیا جاتا ہے کہ وہ کردار ادا کرے،اب یہ کردار ہر سیاسی کردار اپنے اپنے سیاسی مفاد کو دیکھ کر متعین کرتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران میں، اسلام آباد میں علامہ طاہر القادری صاحب ،دھرنے کے دوران جب تقریر کر رہے تھے تو اسی وقت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری کی عدالت میں حکومت کے خلاف کسی کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔ ان کے کسی ریمارکس کی خبر جب ٹی وی کے ذریعے مقرر تک پہنچی تو انھوں نے تقریر چھوڑ کر، مبارک ہو مبارک ہو، کےنعرے لگانے شروع کر دیے۔کہنا وہ یہ چاہ رہے تھے کہ عدلیہ وہی کرنے جا رہی ہے جس کی دھرنے والوں کو امید ہے۔عمران خان صاحب موجودہ دھرنے میں عدلیہ سے کس نوعیت کی امید لگائے ہوئے تھے، اس بابت جاوید ہاشمی متعدد بار کہہ چکے ہیں۔ہمارا مقصود سیاسی معاملات میں عدلیہ کے کردار کو زیر بحث لانا نہیں، بلکہ یہ بتانا ہے کہ سیاست دان اپنی جدو جہد پہ کس قدر کم اعتماد ہیں، کہ انھیں اپنے سیاسی مفادات اور فوائد کے لیے دیگر اداروں کی طرف نہ صرف دیکھنا پڑتا ہے، بلکہ ان اداروں کو معاونت کے لیے مہمیز بھی کیا جاتا ہے۔
موجودہ ،پانامہ کیس کی مختلف سماعتیں،ان کے بعد نون لیگ اور پی ٹی آئی کے رہنماوں کی پریس کانفرنسز اورازاں بعد جے آئی ٹی کی تحقیقات سے موجودہ مرحلے تک، نون لیگ ،اس کی اتحادی جماعتوں اور متوازی پی ٹی آئی نے بھی، اپنے سیاسی حربوں سے یہ پوری کوشش کی ہے کہ عدلیہ کو دبائومیں لا کر فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوا جائے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ صاحب کا بیان پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا، ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر ہمارے خلاف آیا تو اس پہ عمل کریں گے، لیکن اسے مانیں گے نہیں۔اس بیان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی فنکاریوں سے کس طرح عدلات عظمیٰ کو دباو میں لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بالکل اسی طرح پی ٹی آئی والے بھی سپریم کورٹ کو مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ شریف خاندان پہ فوجداری مقدمات قائم کیے جائیں اور انھیں جیل ڈالا جائے۔کیا عدالت اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہی ہے؟کہ سیاسی جماعتیں اب اپنے اپنے مفادات کے تحت سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے لیے بیان بازیاں کر رہی ہیں۔وہ معاشرے جہاں اداروں کو دباو میں لا کر کام لیا جائے ،وہاں اور تو سب چلتا ہے مگر آئین و قانون کی عمل داری ممکن نہیں ہو سکتی۔ سیاسی حیلہ ساز نہ صرف عدلیہ کو دباو میں لانا چاہتے ہیں، بلکہ اپنے سیاسی بیانات میں عدلیہ بحالی تحریک کا ذکر کر کے اپنی سیاسی انوسٹمنٹ کا منافع بھی مانگ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی و نون لیگ،اپنی جد و جہد میں دو انتہاوں پر ہیں۔عمران خان نے کرپشن کے خلاف نوجوان نسل کو متحرک کیا ہے،مگر وہ بھی سپریم کورٹ سے فیصلہ اپنے حق میں لینے کے لیے ججز کی ذہن سازی کی کوشش میں ہیں،اور نون لیگ بھی۔جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں سیاسی جماعتوں اور اس مرحلے پر بنتے بگڑتے سیاسی اتحادیوں کو چاہیے کہ اداروں کو آزادی سے کام کرنے دیں، اور بالخصوص حکومت کسی بھی ادارے یا اس کے نمائندے کو ہدف تنقید نہ بنائے۔ یہ رویہ نہ صرف جمہوریت بلکہ اداروں کی کارکردگی پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔سیاسی کرداروں کو سمجھ لینا چاہیے کہ سازشیں کم اور اعمال زیادہ ہوتے ہیں،جن کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply