وادئ سرن اور منڈہ گچھہ/ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

چترال کا ٹور کب سے لٹکا ہوا تھا، سوچا اس بار عید پہ چلا جاؤں مگر شومئی قسمت کہ عید ڈیوٹی اور دیگر کچھ وجوہات کی بِنا پہ نہ جا سکا۔ڈیوٹی تو ایک ساتھی ڈاکٹر سے کروا کہ سکون کا  سانس لیا اور بچے کچے تین چار دن کے لیے ایبٹ آباد اور ساتھ ٹھنڈیانی جانے کا سوچا۔
ایک دوست تاثیر کو جب بتایا تو جناب نے ان الفاظ میں عزت افزائی فرمائی

”ٹھنڈیانی تو بچے جاتے ہیں یار یا کپلز (یعنی ہمارے زخموں پہ نمک)
تجھے سُوٹ نہیں کرتا، ان جگہوں پہ برگر جاتے ہیں ۔”

اب میں اس مرونڈے کو کیا جواب دیتا گھر بیٹھنے سے تو بہتر ہی ہے بندہ ٹھنڈیانی ہو آئے۔
لیکن،رات کو سوچا کہ جب نکلنا ہی ہے تو کیوں نہ نئی جگہ نکلا جائے اور یوں مجھے وادئ سرن (یا سیرن) کا خیال آیا۔
بہت دور بھی نہیں ہے۔پُر فضا مقام بھی ہے اور ساتھ اس کے ایبٹ آباد کا تاریخی ورثہ بھی دیکھ سکتا ہوں۔سو سیرن ویلی کا پلان بنایا اور وہاں ایک مقامی دوست ڈھونڈ کر  نکل کھڑا ہوا۔

جدید ٹیکنالوجی اور ہر قسم کی سہولیات  کے  باوجود پاکستان میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جو ابھی بھی ڈھکی چھپی ہیں یا پھر یوں کہیں کہ ان کے نصیب میں وہ مشہوری نہیں آئی جو ناران کاغان اور ہنزہ جیسی جگہوں کے مقدر میں لکھی گئی ہے۔ایسی ہی ایک جگہ وادئ سرن ہے۔یہ وادی خیبر پختونخوا  کے ضلع مانسہرہ میں، شنکیاری شہر سے لگ بھگ ایک گھنٹہ کے فاصلے پر واقع ہے جہاں باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ چاہیں  تو راولپنڈی سے سیدھا شنکیاری پہنچ جائیں ورنہ پنڈی سے مانسہرہ اور پھر شنکیاری آ جائیں۔ شنکیاری سے مختلف ٹرانسپورٹ وادئ سرن کے لیے چلتی  ہیں  جیسے ویگنیں، کیری ڈبے اور کاریں۔ آپ چاہیں تو منڈہ گچھہ تک اپنی کار میں بھی جا سکتے ہیں۔ راستہ کافی حد تک بہتر حالت میں ہے اور دلکش نظاروں سے مزین ہے۔
اس وادی کی کئی خصوصیات ہیں۔
ہمالیہ کے خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں واقع اس وادی کو دریائے سرن اور اس کے معاون ندی نالے سیراب کرتے ہیں۔ یہاں آپ کو کئی برف پوش چوٹیاں ملیں گی جن کی تفصیل آگے چل کر بتاؤں گا۔

شنکیاری سے قومی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے ایک سڑک دائیں ہاتھ کو مڑتی ہے جو آپ کو سرن وادی تک لے جاتی ہے۔ کچھ آگے چل کر دریائے سرن بھی آپ کا ہم سفر بن جاتا ہے جس کے کنارے اس وادی کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں شاہ زیب اور سرن جھیل واقع ہیں۔ خوبصورت علاقوں سے ہوتی یہ سڑک آپ کو دادڑ پہنچائے گی جو ایک بڑا قصبہ ہے۔ یہاں دماغی امراض کا ایک بڑا سرکاری اسپتال، کئی تعلیمی ادارے، محکمہ جنگلات کا دفتر اور کچھ بہترین گیسٹ ہاؤس موجود ہیں۔

اس سے آگے جبوڑی ہے جس کے قریب دریائے سرن پہ ایک چھوٹا سا پاور اسٹیشن بنا کے  بجلی پیدا کی جاتی ہے جو اس وادی میں ہی استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے آگے فاریسٹ ریسٹ ہاؤس دومیل ہے جہاں ہمالین ٹراؤٹ کی افزائش کی جاتی ہے۔ پھر آتا ہے نواز آباد جہاں سے دو دریا اور دو راستے نکلتے ہیں۔ دائیں طرف کا راستہ منڈہ گچھہ اور اڈھور کو جاتا ہے جبکہ سیدھا راستہ جبڑ، دیولی اور مونڈی کی طرف لے جاتا ہے۔
ہم دریائے سرن کی ایک شاخ کے ساتھ دائیں مڑیں گے اور پنجول سے ہوتے ہوئے منڈہ گچھہ پہنچیں گے۔

ہمالیہ کے دامن میں سرن کنارے آباد منڈہ گچھہ نہ صرف اس وادی کا اہم علاقہ ہے بلکہ موسیٰ کا مُصلہ جانے والوں کے راستے کا آخری بڑا قصبہ بھی ہے۔ اس جگہ سے موسیٰ کے مُصلے (جسے مقامی لوگ صرف مصلہ پکارتے ہیں) کا زبردست نظارہ ملتا ہے۔

اگر آپ مُصلہ سر کرنے نکلتے ہیں تو ٹھیک ورنہ منڈہ  گچھہ کے آس پاس بھی بہت سی جگہیں ہیں کھوجنے کو۔۔ جیسے کنڈ بنگلہ، جچھا گاؤں، اڈھور، پنج ندی، ڈبل آبشار، وادی چوڑ، ستول اور کھنڈا گلی وغیرہ۔

میں نے نزدیکی جگہوں میں جچھا، ڈبل آبشار اور نزدیک واقع اس پہاڑ کی چوٹی کا انتخاب کیا جس سے منڈہ گچھہ کا بہترین نظارہ ملتا ہے۔ منڈہ سے آپ مصلہ کے لیے نکلیں گے تو بالکل نزدیک سڑک کنارے آپ کو ایک خوبصورت آبشار ملے گی جسے ڈبل آبشار کہتے۔ پھر گھنٹے ڈیڑھ بعد پل پار کر کے  آپ جچھہ پہنچیں گے جو ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ یہاں آپ کو پن چکی بھی دیکھنے کو ملے گی۔ اس سے آگے اڈھور اور پھرموسیٰ کا مصلہ کا بیس کیمپ جہاں جانے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔

منڈا گچھہ انتہائی سرسبز موام ے جس کے آس پاس کافی آبشاریں مل جاتی ہیں۔ تبھی وادی سرن کو آبشاروں کی سرزمین بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس گاؤں کے چاروں طرف کسی نہ کسی وادی کو راستہ نکلتا ہے تبھی اسے وادی کا مرکز بھی مانا جاتا ہے۔ یہاں اس وقت دو گیسٹ ہاؤس موجود ہیں جن میں سے میں نے ”بسیرہ” کا انتخاب کیا جو میرے دوست ذیشان فاروق کے بھانجے عمیرقریشی چلا رہے ہیں۔

ذیشان فاروق منڈہ گچھہ کے رہائشی ہیں اور اس وادی میں ایک ٹورسٹ گائیڈ کے  طور پہ اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ موصوف نے سوشل میڈیا کا درست استعمال کر کے  کئی لوگوں کو اس جانب متوجہ کیا اور خود میں بھی انہی کے توسط سے یہاں پہنچا۔ آپ ایک مہمان نواز دوست اور سادہ طبیعت کے انسان ہیں۔ موصوف نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کے  دور دراز کے  کئی سیاحوں کو چرکو پیک اور موسیٰ کا مصلہ سر کروایا ہے۔

دوبارہ آتے ہیں منڈہ کی طرف!
یہاں ایک مرکزی بازار ہے جہاں ضرورت کی تمام اشیاء مل جاتی ہیں نیز یہاں چار سے پانچ ہوٹل ہیں جو لگژری تو نہیں البتہ آپ آرڈر پہ اچھا کھانا تیار کروا سکتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق یہاں کے لوگ سبزی، دال اور چائے بہت اچھی بناتے ہیں۔ بازار اور ہوٹل مغرب کے فوراً بعد بند ہو جاتے ہیں اور رات آٹھ بجے تک علاقے میں ہُو کا عالم ہوتا ہے۔ علاقے کی سوغات میں مقامی ساگ، مکئی کا آٹا، اخروٹ، تمبر اور شہد شامل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وادی کی اہم ترین سیاحتی دلکشی میں یہاں موجود چوٹیوں کا اہم کردار ہے۔ یہاں کئی چھوٹی بڑی چوٹیاں موجود ہیں جنہیں سر کرنے دور دراز سے سیاح یہاں آتے ہیں۔
”چرکو”، وادئ سرن کی سب سے بلند چوٹی ہے جو کھنڈا پِیک اور مُصلہ کے درمیان واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 4300 میٹر ہے۔
موسیٰ کا مُصلہ” یہاں کی سب سے مشہور اور دوسری بڑی چوٹی ہے جس کی اونچائی لگ بھگ 4080 میٹر ہے اور اسے سر کرنے سیاح دور دراز سے اس وادی کا رُخ کرتے ہیں۔ تحصیل بالاکوٹ میں واقعی یہ چوٹی سال کا بیشتر حصہ برف سے ڈھکی رہتی ہے۔
3886 میٹر بلندی کے ساتھ ”کھنڈہ” یہاں کی تیسری بڑی چوٹی ہے جس کے آس پاس خوبصورت سرسبز چراگاہیں موجود ہیں۔ اس پہاڑ کو عموماً تین دن میں سر کیا جا سکتا ہے۔پاکستان کی بیشتر دریائی وادیوں کی طرح اس وادی کی شہہ رگ ”دریائے سرن” ہے جو منڈہ گچھہ کے قریب ہمالیہ کے ایک گلیشیئر سے نکلتا ہے اور پوری وادی کو سیراب کرتا ہے۔ یہ دریا شنکیاری اور تنول سے ہوتا ہوا تربیلا جھیل میں جا گرتا ہے۔ پاکستان کے کئی انتہائی دلکش و خوبصورت قصبے اس دریا کے کنارے واقع ہیں۔
بلیجہ، کھنڈہ گلی، اڈھور، کنڈ بنگلہ، چوڑ، منڈی، جچھہ اور منڈہ گچھہ اس وادی کی دیکھنے والی جگہیں ہیں۔
اس وادی پر ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے جس کے لیئے ایک دو چکر اور لگانے ہوں گے۔ تب تک اس وادی کے بارے میں آپ میرے فیس بک پیجshahnama پر بہت سی تحریریں پڑھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply