نظریہ ارتقا اور مذہب

نظریہ ارتقا پہ جب بھی بحث ہوتی ہے ہم ایک دلچسپ مسئلہ سے دوچار ہوجاتے ہیں اور وہ ہے الہامی اور سائنسی علم میں بیان کئے گئے واقعات کا ٹکراؤ۔
اس کے بعد بدقسمتی سے بحث کی نوعیت بھی بہت سطحی ہوجاتی ہے اور بسا اوقات تلخی کا عنصر بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ کیا ہم اس سطح سے بلند ہوکے اس معاملے کا جائزہ لے سکتے ہیں؟

سب سے پہلے تو ہمیں الہامی اور سائنسی علم کے موضوع کو دیکھنا ہوگا۔ جہاں سائنس کا موضوع کائنات اور مظاہر کی درست ترین تعبیر و تشریح ہے، الہام کا یہ موضوع سرے سے ہے ہی نہیں، الہامی علم اسے انسان کی اپنی ذمہ داری قرار دیا ہے یہ علم انسان نے حاصل بھی خود ہی کرنا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی ہے کہ کائنات پہ غور و فکر کرکے اسے حاصل کرے۔ الہامی علم کا موضوع ہدایت ہے اور اسے اسی زاویہ نظر سے لیا جانا چاہیے۔

الہامی علم کا مخاطب بھی فرد ہی ہے لیکن قدیم اور جدید انسان کے فہم و تصور کائنات اور اس کے علم میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہ فرق صرف قدیم و جدید پہ ہی موقوف نہیں بلکہ ہر عہد کے انسانوں میں پیچیدہ تصورات کو سمجھنے کی اہلیت کا فرق ہوتا ہے۔ سادہ ذہن کے لئے پیچیدہ مجرد تصورات کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ نظر آنے والی ٹھوس اجسام و اشکال یا مثالوں سے نتائج اخذ کرنے اہل ہوتا ہے جبکہ زیادہ گہرائی میں جانے والا فرد مجرد تصورات کو زیادہ آسانی سے سمجھ لیتا ہے یا اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔

لہذا الہامی علم کے ابلاغ کے لئے زبان کا ایسا پیرایہ جو قدیم و جدید، سادہ اور زیادہ ترقی یافتہ ذہن بیک وقت سمجھ سکے؟ اس لئے الہامی علم کے ابلاغ میں عموماً تمثیلی پیرایہ ہی اختیار کیا گیا تاکہ ہر عہد اور ہر ذہنی سطح کا فرد اصل مدعا یعنی ہدایت کو یکساں طور پہ سمجھ سکے۔ یہاں ایک اور دلچسپ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔ خود قرآن کے مطابق ہر عہد اور ہر قریہ میں خدا کا پیغام یا الہام اترا اور یہ بھی بتایا گیا کہ پیغام اپنی اساس یعنی ہدایت میں ایک ہی تھا۔

خود بہت سے دیوبند رام اور بدھ کو اوتار یعنی خدا کا پیغام لانے والا سمجھتے ہیں۔ تو اس تناظر میں ہم الہامی علم کے معاملہ میں جتنے بھی قدیم عہد کی طرف جاتے جاتے ہیں تمثیل کا پیرایہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اسی لئے مذہبی علم کی تشریح و تفسیر کی ضرورت ہمیشہ ہی رہی، اسلام سے قبل علمائے یہود ہوں یا نصاری۔۔
عہد قدیم کے علماء کا طرز تشریح مجرد تصورات کی نسبت لفظی اور تجسیمی تشریح کی طرف مائل رہا۔ عیسائی علماء نے تو انجیل کی تمام تشریح ہی ارسطالیسی سائنس اور تصور کائنات پہ کرڈالی جس کا بعد میں نقصان بھی ہوا۔

اس کی ایک دلچسپ مثال انجیل کی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پہ پیدا کیا۔ اس کے نتیجہ میں عیسائی علماء کے ہاں خدا کا تجسیمی تصور پیدا ہوا اور وہ خدا کو ایک قوی ہیکل انسان سمجھنے لگ گئے جو ہر شئے پہ قادر تھا۔ قرآن میں یہ بیان ہوا کہ انسان کو خدا نے احسن صورت پہ پیدا کیا۔ اسلوب کے اس فرق سے اہل اسلام کے ہاں خدا کا غیر تجسیمی تصور برقرار رہا۔

اس تمہید کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ الہامی علم میں ہبوطِ آدم، خدا کا انسان و ابلیس سے مکالمہ یا آدم و حوا کے قصے میں اہمیت پیغام اور ہدایت کو حاصل ہے نہ کہ اس کی لفظی واقعاتی تفسیر کو۔ الہامی علم کا موضوع ہی چونکہ ہدایت ہے لہذا اسی زاویہ سے اس کو لیا جانا چاہیے۔ انسان کے ارتقا ء کی تاریخ کا علم حاصل کرنا خود انسان کی اپنی ذمہ داری تھی لہذا پیرایہ وہی اختیار کیا گیا جو قدیم انسان کو بھی اسی طرح سمجھ آسکے جس طرح جدید انسان کو۔

البتہ ہدایت کل بھی ایک تھی اور آج بھی ایک ہی ہے۔ ارتقاءِ انسان کے موجودہ سائنسی نظریہ میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جگہ الہامی پہ منطبق بھی ہوتا ہے مثلاً کینیا، افریقہ میں ارتقا پذیر ہونے والا موجودہ ہومو سیپیئن نوع کا انسان کس جگہ یوریشیا میں داخل ہوا؟ ٹھیک عدن میں۔۔ کچھ یاد آتا ہے؟
اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ جو راستہ اختیار کیا وہ وہی تھا جس جگہ سمندر میں کھارا اور میٹھا پانی ساتھ ساتھ موجود ہے لیکن آپس میں نہیں ملتا، اب بھی کچھ یاد آتا ہے۔

محققین اس بات پہ متفق ہیں کہ اس جگہ سمندر میں بیک وقت میٹھا اور کھارا پانی آپس میں ملے بغیر موجود نہ ہوتا تو انسان کا عدن تک پہنچنا اور ہوموسیپیئن نامی انسانی نوع کا تہذیب کا سفر ناممکن تھا۔ الہامی علم سے اتنے ہی مہین سے اشارے کی توقع کی جانی چاہئے اور اس سے زیادہ نہیں کیونکہ سائنسی علم حاصل کرنا خود انسان کا اپنا فرض ہے۔ ورنہ موجودہ نہیں بلکہ مستقبل کی سائنس کی بھی تمام کتابیں ہی سیدھی سادی آدم پہ نازل کردی جاتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنسی اور الہامی علم کو الگ الگ ان کے موضوع کے مطابق لیا جائے۔ انسانی ارتقا کی سائنسی تھیوری ایک حقیقت ہے لیکن اس کا ہدایت کے علم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply