مردان واقعہ اور الفاظ کا غلط استعمال/محمد عرفان

میرا موقف اس حوالے سے تب تبدیل ہُوا جب میں نے اس مردان واقعے کی ویڈیو دیکھی۔

اس واقعے کے نتیجے میں قتل ہونے والا شخص بظاہر کوئی کم درجے کا عالم دین دکھائی  دے رہا ہے اور جس شخص کی تعریف میں وہ دنیا جہاں کی تعریفیں کر رہا تھا وہ ایک مکمل طور پر سیاسی شخص ہے اور بظاہر اس مولانا کو کچھ نہ کچھ فائدہ دیا ہو گا، جس کے نتیجے میں مولانا صاحب جذبات میں حد سے آگے نکل گئے اور ایک بالکل سیاسی شخص کو نبی کے مساوی درجہ دے ڈالا  اور جیسے ہی اس مولانا نے یہ الفاظ ادا کیے تو اس کی عقل نے کام شروع کیا اور اس نے اپنی بات کی وضاحت دینی شروع کر دی  لیکن ہمارا معاشرہ اس حد تک تشدد پسند ہو چکا ہے کہ اسکی وضاحت کو بالکل بھی ماننے سے انکار کر دیا اور نتیجتاً مولانا صاحب کو کچھ دیر بعد ہی مار مار کر قتل کر ڈالا۔ ۔ یعنی بالفرض اگر اس نے جان بوجھ کر بھی یہ الفاظ ادا کیے ہوں، تب بھی اللہ کے قانون کے مطابق غلطی کے نتیجے میں معافی مانگنے کی صورت میں معافی کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، لیکن یہاں پر ایسے ایسے عاشقان ِ رسول موجود ہیں جو صبح سے لے کر شام تک رسولِ  خدا کی مخالف سمت میں چلتے پھر رہے ہیں لیکن اس مولانا کے لیے ان کے نزدیک معافی کی کوئی  گنجائش نہیں تھی۔

اس لیے ہمارے معاشرے میں یہ نہایت ضروری بات ہے کہ دین کے معاملے میں  بالخصوص رسولِ  خدا کے معاملے میں بات کرنے سے پہلے اس کو اچھی طرح تولیں اور پھر بولیں ۔ مولانا سے غلطی ہوئی لیکن اس غلطی کے اوپر جن لوگوں نے اسے قتل کیا انہوں نے زیادہ بڑی غلطی کی کیوں کہ   زندگی اللہ کی امانت ہے ہم انسانوں کے پاس۔  اس امانت کو اگر کوئی  انسان خود خیانت کرکے ختم کرے تو غلط ہے جسکی مثال خود کشی ہے  لیکن اس سے زیادہ بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اس امانت کو کسی دوسرے شخص سے زبردستی چھین لیں جو اس واقعے میں ہجوم نے کیا۔

یقیناً دنیاوی عدالت میں ہجوم کا کوئی  ریکارڈ نہیں ہوتا لیکن خدا کے مقرر کردہ گواہ جو فرشتوں کی شکل میں ہمارے اردگرد موجود ہیں وہ روز محشر گواہی دے کر ہجوم کے ہر شخص کو مجرم ثابت کریں گے خدا کے سامنے ۔

قتل صرف دو صورتوں میں اللہ کے نزدیک جائز ہے، ایک قتل کے بدلے میں قتل کرنا جس کو قصاص کہتے ہیں اور دوسری صورت فساد برپا کرنے والے شخص کا قتل جائز ہے ۔

مذکورہ بالا واقعے میں قتل ہونے والا شخص دونوں میں سے ایک صورت پر بھی پورا نہیں اترتا اس لیے یہ ناحق قتل تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں پر ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ جس سیاسی شخص کو مولانا صاحب نے پیغمبری کا درجہ دے ڈالا تھا، اس نے آج اپنے دفاع میں مرنے والے شخص کو گستاخ رسول کا لیبل لگا کر اپنی سیاست بچا لی ہے۔۔ یہ سیاستدان کسی کے بھی سگے نہیں ہوتے، یہ صرف اور صرف مفاد پرست ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply