انٹلیکچوئل خودکشی/عامر حسینی

ہندوستان میں سیکولر وچار رکھنے والے دانشوروں کو آج کل سخت ترین چیلنج کا سامنا ہے اور یہ چیلنج ان کو ایک مرتبہ پھر مرکز اور کئی ایک ریاستوں میں برسرِ اقتدار آنے والی ہندؤ فسطائی دائیں  بازو کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے متشدد اور ہندؤ فاشزم پر یقین رکھنے والے گروپوں کی جانب سے کیا جارہا ہے۔

نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے وزرا ء و مشیر ہندوستان کے اندر سیکولر ازم کی جڑوں کو اکھاڑنے کا یہ کام ” نہرو لیگسی / ورثے کے خاتمے کے نام پر بہت تیزی سے کررہے ہیں ۔ نہرو کا ورثہ اگر معیشت کے میدان میں ” ریاستی سرمایہ داری ” تھا تو کلچر و ثقافت کے میدان میں یہ سیکولر ازم تھا اور سیکولر ازم کی ثقافتی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لئے ریاستی سطح پر کئی ایک علمی ، ثقافتی اداروں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا اور یونیورسٹی ، کالجوں کے سربراہوں اور ان میں قائم مختلف انسٹی ٹیوٹس کی سربراہی بھی سیکولر وچار رکھنے والوں کے سپرد کی گئی تھی – نرنیدر مودی کی حکومت اس سارے پروسس کو اب الٹا گھمانا چاہتی ہے۔

نرنیدر مودی کی کابینہ میں ثقافت و سیاحت کے وزیر کہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ایسے تمام انسٹی ٹیوٹس کی اوور ہالنگ کی جائے گی جو کہ ” غرب زدگی ” یعنی ویسٹرنائزیشن کا شکار ہیں اور وہ اسے خود ہی ” نہرو لیگسی / ورثہ ” قرار دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں نہرو میوزیم اینڈ لائبریری نیو دہلی کے ڈائریکٹر کو تبدیل کردیا گیا اور یہ بھی اعلان سامنے آیا کہ اس میوزیم کا نام بھی بدلا جائے گا ، اسی طرح نیشنل بک ٹرسٹ کا چیئرمین بھی تبدیل کیا گیا ، جبکہ نالندہ یونیورسٹی کے چانسلر نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات پروفیسر امرتا سین کو بھی ان کے عہدے سے ہٹایا گیا ، انڈین فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ کا ڈائریکٹر بھی بدلا گیا اور اس کے بورڑ آف ڈائریکٹرز کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے اور نئے آنے والے تمام لوگ وہ ہیں جو ” ہندؤتوا ” یا دائیں بازو کی ہندؤ فاشسٹ آئیڈیالوجی پر ایمان رکھتے ہیں اور سائنسی عقلیت پسندی ، سیکولر و لبرل وچاروں سے شدید نفرت کرتے ہيں۔

نریندر مودی کی مرکزی حکومت اور بی جے پی کی ریاستوں ميں قائم حکومت ہندؤ بنیاد پرستوں اور فسطائیوں کو تھپکی دے رہی ہے اور ان کی جانب سے اظہار کی آزادی اور سیکولر ، لبرل وچار کے حامل دانشوروں اور بدھی مانوں پر حملے بڑھ جانے کا نوٹس بھی نہیں لے رہی اور اسی وجہ سے سیکولر ، لبرل وچار رکھنے والے دانشوروں میں خوف و ہراس بڑھتا ہی جارہا ہے اور پورے ہندوستان میں ” برہمن ازم ، کاسٹ سسٹم ، دائیں بازو کے ہندؤ بنیاد پرست خیالات ” پر سیکولر اور عقلی تنقید کرنا آسان کام نہیں رہا۔

نیویارک ٹائمز کی سونیا فیرئرلی نے اگست 2015ء میں لکھے گئے ایک مضمون میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ہندوستان میں اب ” آزاد خیالی ” اور ” عقلیت پسندی ” کے ساتھ لکھنا یا بولنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوچلا ہے۔

دائیں بازو کے ہندؤ بنیاد پرست اور انتہائی فسطائی متشدد رجحانات کے مالک گروپ کے سربراہ سری رام سینے کا ایک بیان ہندوستانی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں نمایاں طور پر شایع اور نشر ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ
ہندؤ مت اور اس کے جملہ شعائر و شخصیات پر تنقید کرنے والوں کی زبانیں کاٹ دی جائیں گی اور اور ایسے سیکولر دانشور و لکھاریوں کے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ہندوستانی سماج میں ” عقلیت پسند سیکولر وچار ” رکھنے والوں کے لئے جگہ جتنی تیزی سے 80ء کی دھائی کے آخر سے تنگ ہونا شروع ہوئی ، اتنی تیزی سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی اور گزشتہ چار پانچ سالوں سے صرف جگہ تنگ ہونا شروع نہیں ہوئی بلکہ ” برہمن ازم ، کاسٹ ازم اور ہندؤتوا پر تنقید کرنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی شروع ہوگئی ہے اور یہ ایک ایسا رجحان ہے جسے ہندوستان کے اکثر دانشور پاکستان ، گلف عرب ریاستوں سمیت مسلم سماجوں کا خاصا قرار دیتے تھے۔

2013  میں پونا  کے معروف ‌فزیشن اور ہندوستانی سماج میں توہم پرستی کے رجحانات پر شدید علمی تنقید کرنے والے ڈاکٹر ڈھبولکر کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب وہ ہندوستانی شہر پونے کے ایک پل سے گزر رہے تھے ، جبکہ معروف کمیونسٹ لیڈر جن کی عمر 85 سال تھی گووند پنساری اور ان کی بیوی اوما پنساری کو کولہا پور میں اس وقت گولی ماری گئی جب وہ کار میں کہيں  جارہے تھے ، گووند برہمن ازم اور ذات  پات پر مبنی مذہبی  تعصبات کے سخت خلاف تھے اور وہ ہندو فاشزم کے سب سے بڑے ناقد خیال کیے جاتے تھے ۔ یہ واقعہ جس میں گووند پنساری اپنی زندگی کی بازی ہار گئے کولہپور میں پیش آیا جہاں کیمونسٹ رجحان بہت مقبول رہا ہے اور یہاں پر کاسٹ ازم و برہمن واد کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔اور یہ واقعہ فروری 2015ء مين پیش آیا تھا جبکہ اگست 2013ء ميں جنوبی ہندوستان میں ہندؤ مت کے سب سے مقبول مذہب ” لنگیات ” پر تنقید کے حوالے سے معروف اور بت پرستی کی مخالفت کرنے والے کرناڈا یونیورسٹی کے سابق چانسلر ڈاکٹر ایم ایم کال بروگی کو ان کے گھر کے اندر گھس کر دو افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کیا اور آرام سے فرار ہوگئے۔

ہندوستان میں سیکولر ، لبرل وچار رکھنے والے ان مذکورہ بالا تین دانشوروں کی ٹارگٹ کلنگ نے اس متھ کو توڑ ڈالا کہ ہندوستان مين ” مذہب ” پر لبرل و سیکولر ، عقلیت پسندانہ تناظر میں دانشورانہ تنقید کرنے کے باوجود آپ زندہ رہ سکتے ہو۔

ہندوستان کے بنگالی مسلم صحافی ، دانشور اور سابق مدیر دی سنڈے ٹائمز مبشر جواد اکبر جو ایم جے اکبّر کے نام سے مشہور ہیں اور آج کل بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی ترجمان ہیں نے پاکستان کے معروف سیاست دان اور پی پی پی کے گزشتہ دور حکومت میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں توھین مذھب کے الزام میں مارے جانے پر کہا تھا کہ
اگر سلمان تاثیر ہندوستانی مسلمان ہوتے اور ہندوستان میں رہتے ہوتے تو آج زندہ ہوتے۔۔

ایم جے اکبّر کا مجھے اس وقت بھی یہ بیان ایک تعصب سے بھری ہوئی سیاسی تعلی اور پوائنٹ اسکورنگ کے سوا کچھ نہیں لگا تھا ، کیونکہ ہندوستان میں اس وقت تک تسلیمہ نسرین اور ایف ایم حسین کے لئے جگہ تنگ ہوچکی تھی اور ان کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا ، جبکہ اسی زمانے میں معروف افسانہ نگار ، صحافی اور اردو ادبی رسالے کے مدیر ساجد رشید پر ایک ہندی اخبار میں جہاں پر وہ اداریہ نویسی کرتے تھے ایک اداریہ لکھنے کی پاداش میں قاتلانہ حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ ساجد رشید مرحوم کی خوش نصیبی تھی کہ وہ اس حملے میں بچ نکلے تھے ۔ ساجد رشید پر بھی بلاسفیمی کا الزام لگا اور اور اس الزام کی گونج پاکستان بھی پہنچی تھی اور جب ساجد رشید کا انتقال ہوا تو پاکستان ، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے اندر کئی ایک ادبی تنظیموں نے ان کے تعزیتی ریفرنس کے انعقاد سے اسی الزام کے سبب یا دائیں بازو کے فسطائی گروپوں کے ردعمل کے ڈر سے گریز کیا تھا۔

ایم ایم کال بروگی جن کو ان کے گھر گھس کر گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا 1989ء میں بھی ہندؤ بنیاد پرستوں کے ہاتھوں پٹے تھے جب ان کی ” لنگیات ” اور اس کے بانی بسواس کے اوپر ایک علمی تنقیدی تحقیق شائع  ہوئی تھی ، اس زمانے میں ایم ایم کال بروگی نے شدید دباؤ کے سبب اپنی تحقیق سے دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ
میں نے اپنے خاندان کی زندگی ہی نہیں بچائی بلکہ ساتھ ساتھ انٹلیکچوئل خودکشی بھی کرڈالی ہے۔

ہندوستان میں اس طرح کی انٹلیکچوئل خودکشی کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ بطور ادیب اپنی موت کا اعلان کرنے والے ادیب پیرومل جن کا تعلق تامل ناڈ صوبے کے ضلع نمک کال کے علاقے تروچن گوڈے سے ہے کو بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان کا تامل زبان میں ناول
Mathorubagan
شائع  ہوا اور یہ ناول اصل میں تامل ضلع نمک کال کے علاقے تروچن گوڈے میں ایک صدی قبل رائج ایک مذہبی رسم جسے ” نیوگ دھرم ” کہا جاتا ہے کے بارے میں تھا ۔ نیوگ دھرم ایک ایسی رسم تھی ،جو نیوگ دھرم میلے کے موقع  پر ہر سال منائی جاتی تھی اور اس میں ایک شادی شدہ خاتون کو جو بچّے سے محروم ہوتی کسی اور سے تعلق بناکر بچے کی پیدائش کی اجازت ہوتی تھی اور اس میلے کی رات اگر وہ عورت اپنے شوہر سے ہٹ کر کسی اور مرد سے وصال کرتی اور اس سے بچّہ ہوجاتا تو اسے ” بھگوان کا انعام ” قرار دیا جاتا تھا۔ تامل ادیب پیرومل کا ناول ” مادھورا باگابان ” جس کا ہندی متبادل لفظ ” ادھراناری شیواسر ” بنتا ہے اور اس کا مطلب ” ادھوری عورت یا نصف عورت ” ہوسکتا ہے کی کہانی ایسے میاں بیوی کی کہانی ہے جو تامل ناڈ کے قصبے ” تروچن گوڈے ” میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کی جنسی اور خانگی زندگی بہت اچھی ہے لیکن ان کے ہاں کئی سالوں سے بچہ  نہیں ہوتا اور اس پر عورت کو مسلسل طعنے ملتے ہیں اور تذلیل کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ یہ جوڑا کالی کی پوچا سمیت ہر طرح کی عبادت اور یاترائیں کرتا ہے جب کچھ نہیں ہوتا تو آخر کار عورت ” نیوگ دھرم ” کا سہارا لیتی ہے ۔ اس ناول کا انگریزی ترجمہ ” ون پارٹ ویمن ” عنوان سے ہوا اور یہ ناول ایک طرح سے پیرومل کے ادیبانہ زندگی کا خاتمہ بھی ثابت ہوا۔

جب یہ ناول شائع ہوا تو پیرومل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں اور ان کے ناول کی کاپیاں جلائی گئیں ، ان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا اور ان کے خلاف پبلک انٹرسٹ لیٹیگشن کے تحت کئی درخواستیں بھی عدالت میں داخل ہوئیں ، اس صورت حال پر تامل ادیب پیرومل نے اپنے ناول کی غیر فروخت شدہ کاپیاں واپس لینے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپنی ادبی زندگی کی موت کا اعلان بھی شائع  کردیا اور وہ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے حلفیہ بیان داخل کرتے ہوئے انہوں نے عدالت کو بتایا
I published my own obituary in my Facebook account. Whether others believe in the death of Perumal Murugan as a writer or not, I believe in it. A writer cannot function under threat or fear
میں  اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپنی موت کا اعلان شائع کرچکا ہوں۔ دوسرے پیرومل موروگان کی بطور ادیب موت پر یقین رکھتے ہوں یا نہ ہوں مگر میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ ایک ادیب دھمکی یا خوف کی فضا میں کام نہیں کرسکتا۔
ادیب پیرومل کی موت کے اعلان اور عدالت میں حلفیہ بیان داخل کرانے سے پیرومل موروگان کو معافی مل گئی تھی لیکن اب ہندوستان میں صورت حال اس حوالے سے بالکل بدل چکی ہے اور ایم ایم کال بروگی کو 1989ء ميں انٹلیکچوئل خودکشی کے باوجود قتل کردیا گیا اور ان کا قتل اس بات کا اعلان ہے کہ اب جو بھی ایسا کچھ کرے گا اس کے لئے معافی کی گنجائش بھی نہيں نکلے گی
ہندوستان کے اندر جس طرح سے دائیں بازو کے ہندؤ فاشزم کا مین سٹریم انٹلیکچوئل لآئف پر غلبہ نظر آرہا ہے اور وہاں پر سیکولر ، لبرل اور ریشنلسٹ ڈسکورس کو سخت مشکل کا سامنا ہے ، اسی طرح کی صورت حال بنگلہ دیش میں بھی ہے جہآں پر اگرچہ عوامی لیگ کی حکومت سیکولر ازم کے حق میں کھڑی ہے لیکن وہآں چار بلاگرز ” بلاسفیمی ” کا الزام لگا کر قتل کئے جاچکے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے اندر ” سیکولر انٹلیکچوئل ازم ” کو کتابوں اور مین سٹریم میڈیا سے نکلے اور فوت ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اب یہ ” سیکولر ، لبرل ، انٹلیکچوئل ، ریشنل ڈسکورس ” سوشل میڈیا پر گھوسٹ ناموں سے ہی موجود ہے یا اس میں اپنے اصلی نام سے وہی موجود ہے جو مغربی ملک میں رہتا ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply