اسلامی ممالک کی اتحادی افواج

جب یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کو سعودی اتحادی افواج میں شامل ہونا چاہیئے یا اس کا سربراہ کسی پاکستانی کو ہونا چاہیئے تو اس کا پس منظر سمجھنا بھی ضروری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

حجاز مقدس صدیوں سے اپنی پیداوار کے لحاظ صفر تھا نہ اس کی کوئی صنعت تھی اور نہ ہی زراعت نتیجہ یہ کہ غربت بے تحاشا تھی۔ قیام پاکستان تک برصغیر کے نواب، رئیس اور سلاطین اپنی زکوٰۃ و عطیات اہل مکہ و مدینہ پر خرچ کرنے کو ہی ترجیح دیا کرتے تھے جو حج کے موقع پر بھیجے جاتے تھے اور یہ اس پیمانے پر ہوتے کہ ان کے پورے سال کی ضرورت پوری ہوتی تھی۔ جب سعودیہ بنا اور تیل دریافت ہوا تو یہ عرب اپنے پرانے محسنوں کو نہیں بھولے۔
سعودی عرب ایک ایسی ریاست کے طور پر متشکل ہوا جو آل سعود کی ملکیت ہے تو انھوں نے اپنے شدت پسند اور انتہا پسند اسلام کی توسیع کے سب سے زیادہ توجہ پاکستان اور بھارت پر دی۔
یہ بات درست ہے کہ مسلمان ممالک تو وسطی ایشیا اور مشرق بعید میں بھی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو سعودی عرب کی توجہ کا مرکز صرف پاکستان اور ہندوستان کے مسلمان ہیں۔ جہاں سعودی عرب اپنے شدت پسند فہم کو پھیلانے کا خاص اہتمام کرتا ہے یہ بات کہ بطور ریاست عرب دنیا سے باہر وہ صرف پاکستان کے لئے اپنے خزانوں کا منہ کھولتے ہیں اور جو مانگا جاتا ہے جتنا مانگا جاتا ہے وہ دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی جو علانیہ مدد آج تک کر رکھی ہے وہ اس کی خفیہ مدد کا بمشکل دس فیصد ہے۔ چونکہ پاکستان کو معاشی تباہی سے بچانے کا ذمہ سعودی عرب اپنے ذمے لے چکا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر زمیں بوس نہیں کیا جا سکتا اس لئے جوابا ًسعودی عرب کا عسکری دفاع پاکستان اپنے ذمے لے چکا۔ یوں سعودی ہمارا معاشی اور ہم سعودیوں کا عسکری دفاع کرتے ہیں اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
سعودی اپنے تکفیری بھائیوں اور ہم خیال مذہبی گروپوں کو بہت مدد دیتا ہے۔۔ پاکستان میں مذہبی عدم برداشت اور فرقہ وارانہ فساد کا ایک اہم سپانسر سعودی عرب ہے پاکستان جو ایک ابھرتا ہوا صنعتی ملک تھا اس کی سستی لیبر کو لینے کے لئے اور اس کو اپنا معاشی طور پر دست نگر بنانے کے لئے سعودی عرب کا اہم کردار ہے ۔بھٹو اور ضیا دور میں اپنے پنجے مضبوط کرنے کے بعد پاکستان نے کبھی سعودی تیل کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اپنے ملک میں ایک مضبوط صنعتی ڈھانچے کی کوشش کی ہے۔ سعودیوں نے کبھی پاکستانیوں سے برابری اور مساوی بنیاد پر تعلق استوار نہیں کیا بلکہ پاکستانیوں کو اپنا دست نگر اور محتاج رکھنے میں خوشی محسوس کی ہے پاکستانیوں کی خفیہ امداد نے پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کا پیٹ بھرا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان میں اپنے ہم مسلک کو فروغ دیا ہے اور اسے ایک روشن خیال اسلامی ملک سے تنگ نظر اور شدت پسند مذہبی ملک بنانے پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
اس کے جواب میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے آل سعود کی حکومت کو داخلی اور خارجی خطرات سے بچانے کی ذمہ داری لی ہے۔ سعودی فوج اور سعودی اسلحہ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے مگر اس کے باوجود سعودی عرب نے اس لئے اپنی منظم افواج نہیں بنائی کہ ہر بادشاہت کی طرح اسے بھی فوجی انقلاب کا اندیشہ ہے۔ اس لئے وہ ایک غیر عرب ملک کی فوج کو استعمال کرنے کو فوقیت دیتا ہے
سعودیہ پوری دنیا میں ایک مخصوص مسلک کی شدت پسند تعبیر کو مستحکم کر رہا ہے ،وہاں دوسری تمام مسلکی آبادیوں پر پابندیاں ہیں اور وہاں قبائلی اور مفاداتی گروپ جنم لے رہے ہیں ۔ان تمام کو اقتدار میں مناسب حصہ دینا اور ان کی نمائندگی کو شامل کرنا سعودی حکومت کا کام ہے اگر وہ ایک خاندان کی بادشاہت کو چلانے پر بلکہ اس خاندان کے ایک سدری سیون کے حصے کی حکومت کو ہی سعودی استحکام کا واحد طریقہ خیال کرتے ہیں تو عدم استحکام کا سلسلہ تو شروع ہو سکتا ہے۔ کیا ہم اس خاندانی حکومت کو قائم رکھنے اور ان کے مخالفین کو کچلنے کے لئے ایک اتحادی فوج کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟؟

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
غیر سنجیدہ تحریر کو سنجیدہ انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply