• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اچھی تربیت گھروں سے ملتی ہے’ اونچے اسکول صرف تعلیم دیتے ہیں / عاصمہ حسن

اچھی تربیت گھروں سے ملتی ہے’ اونچے اسکول صرف تعلیم دیتے ہیں / عاصمہ حسن

اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ” تربیت اور پالنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے آپ کا لہجہ’ رویہ اور آپ کا اخلاق بتاتا ہے کہ آپ کی تربیت ہوئی ہے یا آپ کو صرف پالا گیا ہے ـ”
بچوں کی تربیت کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ـ دورِ جدید میں یہ کام اور بھی مشکل ہو گیا ہے جس کے پیچھے کئی محرکات کا عمل دخل ہے ـ
کچھ والدین کا خیال ہے کہ تربیت کرنا اسکولوں کا کام ہے اس لئے وہ مہنگے سے مہنگے ترین اسکول میں بچے کو داخل کرواتے ہیں تاکہ وہ خود اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہو سکیں ـ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اسکول کتنا ہی اعلیٰ معیار کا ہو’ اس کی فیس جتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو اس کا کام صرف اور صرف نصاب کو ختم کرنا ہے یعنی صرف اور صرف تعلیم دینا ہے ـ
دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین پھر چاہے وہ امیر ہوں’ غریب یا پھر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلوانے اور ان کا مستقبل سنوارنے اور ان کی شخصیت بنانے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں اور اپنی خواہشات کو مار کر ‘ اپنا پیٹ کاٹ کر مہنگے اسکولوں کی فیس ادا کرتے ہیں ـ
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنی فیسیں دینے کا باوجود بچہ صرف کتابوں کو رٹہ لگانا ہی سیکھتا ہے ـ بڑے اسکول صرف اپنا نام ہی دیتے ہیں اور اسی کو وہ والدین سے کیش کرواتے ہیں ـ جبکہ اسکول کا کام جو ان کو کروانا چاہئیے وہ بھی والدین کو ہی کروانا پڑتا ہے یا پھر ٹیوشن کی الگ سے فیس دینی پڑتی ہے کیونکہ اکثر والدین پڑھے لکھے نہیں ہوتے یا وقت کے حساب سے تعلیمی سرگرمیاں یا نصاب تبدیل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کو پڑھانے سے قاصر ہوتے ہیں لہذا ٹیوشن یا اکیڈمی کا اضافی خرچہ برداشت کرتے ہیں ـ اپنے بچوں کو خود سے بڑھ کر تعلیم دینے’ ان کا مستقبل سنوارنے کی لگن میں اپنی خواہشات کو دل کے قبرستان میں دفن کر دیتے ہیں ـ
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ گورنمنٹ اسکول اُس معیار کے نہیں رہے جہاں بچوں کو تعلیم دلوائی جا سکے ـ ملک بھر میں پرائیویٹ اسکولوں کا جال پھیلا ہوا ہے جو فیسوں کے نام پر والدین سے اچھی خاصی رقم بٹورتے ہیں جو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ برداشت بھی نہیں کر پاتے لیکن مجبوری کا نام شکریہ والی بات ہے کیونکہ ان کو دوسرا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا ـ
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بھاری بھر کم فیسیں ادا کرنے کے باوجود وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جس کی والدین توقع رکھتے ہیں ـ
ایک بچے کی صرف اسکول کی فیس نہیں ہوتی بلکہ بستہ’ کتابیں ‘ اسٹیشنری’ یونیفارم’ کھانا پینا’ وین رکشہ کا کرایہ یا پٹرول کا خرچہ الگ ہوتا ہے اس کے علاوہ اسکول کی متواتر اپنی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں ہیں جن میں حصہ لینے والے بچوں کو مجبوراً کرداروں کے مطابق کپڑے لینے پڑتے ہیں جن کا خرچہ برداشت سے باہر ہوتا ہے اور وہ کپڑے صرف ایک دفعہ ہی پہنے جاتے ہیں لیکن والدین مجبور ہیں کیونکہ ایک مشہور اسکول میں پڑھانے کے لئے یہ سب انھیں کرنا پڑتا ہے اگر انکار کریں گے تو اسکول والے بچے کو اس ڈرامہ یا سرگرمی سے باہر نکال دیں گے ـ
تمام والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے تاکہ اس کی شخصیت میں نکھار آ سکےاور اسٹیج پر مقابلہ کرنے سے اعتماد میں اضافہ ہو سکے لیکن اس کی انھیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ـ
اس سارے قصے میں تربیت کا تڑکا کہیں نہیں لگتا جو کہ اہم اور ضروری جزو ہے ـ بچہ اپنے دن کا بیشتر حصہ اسکول میں گزارتا ہے اور جب وہ واپس آتا ہے تو اسے اسکول کا ہی ہوم ورک کرنا ‘ پڑھنا’ سبق یاد کرنا’ امتحان کی تیاری کرنا ہوتا ہے اسی میں بچے کے سونے کا وقت ہو جاتا ہے ـ اب ایسے حالات میں تربیت ہی قربان ہوتی ہے ـ
بہرحال اسکول والے کبھی بھی تربیت کی ذمہ داری نہیں اُٹھاتے یہ کام صرف اور صرف والدین کا رہ جاتا ہے اور انھیں ہی اس کا بیڑہ اٹھانا چاہیے کیونکہ اولاد ہماری ہے ان کی تربیت کی تکلیف بھی ہمیں ہی ہوگی ـ
آج کل تعلیمی اداروں میں نمبروں کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور ہر ایک اس کا حصہ بنا ہوا ہے اور اس رسہ کشی میں اول آنے کے چکر میں تربیت کا خانہ خالی رہ جاتا ہے ـ
ہم بھول جاتے ہیں کہ انسان کی پہچان اس کی تربیت’ رویے ‘ برتاؤ اور شخصیت سے ہوتی ہے اس کے بعد ہی ڈگری یا تعلیم آتی ہے ـ
ہمیشہ یاد رکھیں کہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے اور گھر میں ہی ہوتی ہے ـ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تربیت کرنا صرف ایک فرد کی ذمہ داری نہیں ہوتی اس میں دونوں والدین اور گھر کے تمام اراکین شامل ہوتے ہیں اس کے علاوہ گھر کا ماحول’ مکینوں کا رہن سہن ‘ طور اطوار’ بول چال’ رویہ’ سوچ اور ان کا عمل جیسے دیگر عوامل بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ـ اپنے اندر تبدیلی لے کر آئیں ‘ اپنے رویوں پر غور کریں’ ان میں بدلاؤ لے کر آئیں تاکہ بچہ آپ سے اچھے طور طریقے سیکھ سکے ـ بچے خاموش مشاہدہ کرتے ہیں اور وہی عادات اپناتے ہیں جن کا وہ اپنے اردگرد بغور تجزیہ کرتے ہیں ـ وہی ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں لہذا اپنے بچوں کی تربیت کرنے کے لئے پہلے خود کو بدلیں پھر گھر کے ماحول کو بہتر بنائیں تاکہ بچے پر اچھا اثرات مرتب ہو سکیں ـ
دورِجدید کے بچے بے لحاظ ہوگئے ہیں ‘ ادب و احترام’ شرم و حیاء اب ناپید ہوگئی ہے ـ جس کی کئی وجوہات ہیں ـ ہمارا تعلیمی نظام ‘ تربیت کا فقدان ‘ بھیڑچال’ افراتفری’ نفسانفسی’ بے حسی’ بے ایمانی ‘ خودغرضی’ میڈیا ‘ الیکڑانک آلات جیسی کئی بیماریاں ہمیں گھیرے ہوئے ہیں ـ
وقت بہت نازک ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم ایک اچھا معاشرہ ترتیب دے سکیں اور اپنی نسلوں کو تباہ ہونے سے بچا سکیں ـ بچے کو تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کریں لیکن ساتھ ساتھ ان میں تربیت کے نگینے بھی لگائیں تاکہ ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ سکیں ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اچھی تربیت گھروں سے ملتی ہے’ اونچے اسکول صرف تعلیم دیتے ہیں / عاصمہ حسن

Leave a Reply