جناب غلام احمد پرویز،ایک ذاتی تاثر۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم

میرا جناب علامہ غلام احمد پرویز سے ابتدائی تعارف ایف ایس سی کے دوران ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں مودودی صاحب کی اکثر تصانیف پڑھ چکا تھا اور مختلف مسالک کے اکابرین کی تصانیف زیر مطالعہ تھیں۔ ایسے میں ایک دوست کی وساطت سے ان کی متعدد کتابیں مثلاً انسان نے کیا سوچا، شاہکارِ رسالت، مقامِ حدیث، سلیم کے نام خطوط، من ویزداں اور تصوف کی حقیقت پڑھنے کا موقع  ملا۔اگرچہ ان دنوں میں مذہب کی روایتی تعبیر کا قائل تھا لیکن میری دلی خواہش تھی کہ جدید زمانے کے اسلوب کے مطابق اسلام کی کوئی علمی اور عقلی تشریح میسر آئے ۔پرویز صاحب کی فکر اور ان کے بارے میں لکھنے کے لئے جس محنت کی ضرورت ہے شاید وہ اب میں نہیں کر سکتا یونیورسٹیوں میں تو پرویز صاحب پر تحقیقی کام کرنے کی اجازت نہیں، یہ کچھ سطریں پرویز صاحب کے بارے میں میرے ذاتی تاثر پر مبنی ہیں، ان کو کوئی علمی یا تنقیدی جائزہ نہ سمجھا جائے۔

جناب غلام احمد پرویز صاحب کے باب میں ایسا ہوا ہے کہ یا تو ان کے عقیدت مندوں نے ان کی عقیدت اور محبت کی وجہ سے ان کے اعلی مقام کا تعین کیا ہے یا ان کے مخالفین نے ان کے مختلف مضامین اور کتابوں کی وجہ سے ان پر کفر، ارتداد یا گمراہی کے فتاوی دیئے ہیں ان کے بارے میں غیر جانبداری سے شاید ہی کسی نے لکھا ہو۔ اب تو ایسے مذہبی علما ہیں جنہوں نے ان کا نام لئے بغیر ان کی بعض باتوں اور تصورات کا سرقہ کیا ہے اور اپنے نام سے پیش کیا ہے۔ شاید ہی کسی نے پرویز صاحب کے علمی اور عملی کام کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا ہو ۔ اس مضمون میں میں نے پرویز صاحب کے بارے میں کچھ ذاتی تاثرات لکھے ہیں اس کا مقصد جناب پرویز صاحب پر کوئی علمی تنقید نہیں ہے کہ یہ ایک محنت طلب اور تحقیقی کام ہے جو ہماری جامعات میں اسلامیات کے پی ایچ ڈی طلبا و طالبات کا کام ہے اور وہاں ان پر کوئی کام ہونا ممکن نہیں ہے۔

یہ ایک سرسری جائزہ ہے اور دوستوں سے گزارش ہے کہ اپنے تعصبات کو بیان کرنے کی بجائے اس کا علمی جائزہ لیں۔ میرے نزدیک جناب غلام احمد پرویز صاحب کا اصل کام قرآن مجید کی جدید زمانے میں ایک تفہیم اور تعبیر کی کوشش تھی۔ پرویز صاحب کی تفسیر کئی جلدوں میں ہے اور اس کے علاوہ مطالب القرآن اور لغت القرآن کا کام الگ ہے ان میں سے بیشتر کتابوں کا مطالعہ کر چکا ہوں بلاشبہ یہ ایک زبردست علمی کام ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کو کریڈٹ دیئے بغیر بہت سے لوگ ان کاموں سے استفادہ اٹھا رہے ہیں ۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پرویز کا یہ زبردست علمی کام ان کی وجہ شہرت نہیں ہے بلکہ ان کی وجہ شہرت احادیث کو دوبارہ پرکھنے اور دین کی حجت کے طور پر اس کے مقام کے دوبارہ تعین کا وہ موقف ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے علماء نے ان کے کافر ہونے کا متفقہ فتویٰ جاری کیا تھا۔پرویز مروجہ معنوں میں حدیث کے قائل نہ تھے اور ان کا خیال تھا کہ قرآن ایک صاف اور کھلی کتاب ہے جس کی وضاحت خود قرآن کے ذریعہ ممکن ہے۔ پرویزصاحب کا خیال ہے کہ ایک جدید متشکک ذہن کے علمی معیار کو احادیث کا یہ ذخیرہ مطمئن  نہیں کر سکتا اس لئے انہوں نے اپنے فہم کے مطابق دفاعِ اسلام کی لگن میں حدیث کے وسیع تر ذخیرہ کو صرف اسی لیے رد کیا کیونکہ جدید دور میں اس کی وکالت نہایت مشکل تھی۔پرویز صاحب کو یہ آسان معلوم ہوا کہ اس ذخیرہ کو اسرائیلیات اور عجمی سازش قرار دے کر رد کردیا جائے تاکہ دفاع اور تاویل کے تردد سے ہی جان چھوٹے۔

پرویز یہ نہیں کہتے کہ قول رسول حجت نہیں ہے بلکہ ان کا خیال یہ تھا کہ نبی جو فرمائیں وہ حق تو ہے لیکن ہم تک درست شکل میں نہیں پہنچا لہذا اسے حجت نہیں مانا جا سکتا۔ اس ضمن میں پرویز نے تدوینِ حدیث پر کئی پہلوؤں سے بھرپور اعتراضات کیے ہیں۔

دوسری طرف پرویز صاحب قرآن کو محفوظ سمجھنے کے لیے صرف اس آیت کو کافی سمجھتے ہیں جس میں خدا نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ پرویز صاحب نے احادیث کا دوبارہ تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لینے کا مشکل کام کرنے کی بجائے ان سے جان چھڑانا آسان سمجھا ہے اس ضمن میں انھوں نے جو دلائل دیئے ہیں ان کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین نے تدوین قرآن پر بھی ایسی باتیں کی ہیں جن کی نوعیت ان اعتراضات سے ملتی جلتی ہے جو پرویز تدوین حدیث پر اٹھاتے ہیں۔ لیکن پرویز اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اس ضمن میں وہ قرآن کی اندرونی دلیل کو ہی کافی سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ پرویز صاحب ان باتوں کا علمی اور تحقیقی جائزہ لیتے تو انہیں  احادیث کو بھی تسلیم کرنا پڑنا تھا۔ پرویز صاحب کو پڑھتے ہوئے کبھی کبھی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کسی جدید اور مختلف عالم اور محقق کو نہیں پڑھ رہے بلکہ ایک جدید طرز کے مذہبی ذہن کو پڑھ رہے ہیں ۔

تدوین احادیث پر ہی پرویز کے موقف کو دیکھ لیں ۔۔۔ان کا یہ موقف پہلی نگاہ میں انقلابی معلوم ہوتا ہے لیکن دوسری اور تفصیلی نگاہ میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ زبردست الفاظ اور دلائل سے تو مالامال ہے مگر یہ کوئی تحقیقی اور تنقیدی جائزہ نہیں ہے۔ حدیث مسلمانوں کی علمی روایت کا بنیادی ستون ہے۔’خالص دین’ تک پہنچنے کے لیے اس سرمایہ کو رد کرنا کوئی عالمانہ بات نہیں بلکہ یہ بھی دراصل ایک جوابی مذہبی ردعمل اور رویہ ہے جو اپنی انتہا میں اس نتیجہ تک پہنچتا ہے کہ اسلام کو جس طرح پرویز نے سمجھا آج تک کسی اور مسلمان نے نہیں سمجھا اور پرویز کی سمجھ ہی اصلی اسلام ہے۔

پرویز صاحب درست کہتے ہیں کہ ذخیرہ حدیث میں ایک بڑی تعداد من گھڑت اور موضوع حدیثوں کی ہے لیکن اس بنیاد پر پورا ستون گرا دینا درست نہیں۔ بلکہ ضرورت تھی کہ جدید زمانے کے وسائل اور علم کی روشنی میں ان احادیث کا دوبارہ جائزہ لیا جاتا اور صحیح احادیث کا ایک نیا مجموعہ مرتب کیا جاتا۔

دوسری بات ان من گھڑت اور موضوع احادیث کے بارے یہ بھی ہے کہ  ایک موضوع حدیث بھی بے وقعت نہیں ہوتی بلکہ اس زمانے کے سماج اور لوگوں کی نفسیات سمجھنے میں معاون ہوتی ہے۔ اس سے یہ تعین کرنے میں مدد ملتی ہے کہ اس زمانے کے لوگوں نے کن ضروریات کے تحت اس حدیث کی تشکیل دی ہوگی اور کون کون لوگ اس عمل میں شامل ہوں گے۔ یا ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث اصل میں کسی راوی کی ذاتی رائے ہو اور اس کو دوسرے راویوں نے حدیث سمجھ لیا ہو۔ پرویز کا انکار حدیث ایک محقق کا انکار نہیں ہے بلکہ ایک ردعمل کے شکار مذہبی ذہن کا انکار ہے جو ردعمل کی نفسیات کے تحت دوسرے مذہبی ذہن کی بات کو درست نہ سمجھتے ہوئے رد کردیتا ہے۔

پرویز کا ایک اور عجیب رویہ ردِ تاریخ ہے۔ چونکہ پرویز حدیث کے قائل نہیں لہٰذا مسلم تاریخ کے ایک بڑے ذخیرے کا انکار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قرآنی آیت جو صحابہ کو آپسی مسائل میں نرم اور رحم دل بتاتی ہے، پرویز صرف اسی کے بل پر جمل اور صفین جیسی جنگوں کا انکار کرتے ہیں کیونکہ صحابہ کے متعلق جب قرآن نے کہہ دیا کہ وہ آپس میں لڑ ہی نہیں سکتے تو لامحالہ تاریخ جھوٹ ہے۔پرویز صاحب نے ‘عجمی سازش’ کا ایک پورا تصور وضع کیا اور اسے ایک الگ علم کی شکل دی ہے۔اس سے فائدہ یہ ہوا کہ تاریخ اسلام اور فہم اسلام میں ان کو کمزور پہلو محسوس ہوئے ان کو ایرانی اور دیگر مفتوحہ اقوام کے سر تھو پ  دیا گیا ۔ اس طرح ‘خالص دین’ کو الگ کر کے پیش کرنا آسان ہوگیا۔ پرویز کا یہی رویہ انہیں شیعہ دشمنی کی طرف بھی لے گیا۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ آج اہل تشیع کے بہت سے دشمن علما ء اور لوگ پرویز صاحب کا نام لئے بغیر اس عجمی سازش کا بہت حوالہ دیتے ہیں اور اس کے ذریعے شیعہ مسلک کو نشانہ بناتے ہیں۔

پرویز کی اصل خوبی ان کی اچھی انشا پردازی ہے لیکن ان کی وسعت پسند شخصیت کے لئے یہ شعبہ نہایت محدود تھا اس لئے انہوں نے مذہبی معاملات میں دلچسپی لی۔ تحقیقی مسائل میں وہ  ایک باقاعدہ محقق نہیں تھے مگر ان کے پاس خوبصورت الفاظ، دلائل اور دوسروں کو لاجواب کرنے والی منطق ہے ،انہوں نے اپنی کتابوں میں اپنی ان صلاحیتوں کا خوب استعمال کیا ہے۔ اسلام کی جدید تعبیر کرنے والے تینوں بڑے نام، پرویز، مودودی اور غامدی باہمی تمام تر اختلافات کے باوجود تصوف کے بارے اتنا سطحی اور محدود تصور رکھتے ہیں کہ ان کے اس موقف کا موازنہ اس موضوع پر احسان الہی ظہیر کی کتاب کے سوا کسی اور سے نہیں کیا جا سکتا۔ تینوں جدید ذہن اس بارے میں متفق ہیں کہ تصوف نہ صرف اسلام میں عجمی پیوند ہے بلکہ اصل میں یہ اسلام کی ایک متوازی تعبیر ہے جو اصل اسلام سے مطابقت نہیں رکھتی۔

پرویز کا یقین تھا کہ وہ تمام علوم کے ماہر ہیں اس لئے انہوں نے جس موضوع کو بھی پسند کیا اس موضوع پر اپنی خوبصورت تحریر، زبردست دلائل اور انشا پردازی کا خوب استعمال کیا حالانکہ ان میں سے کوئی چیز بھی تحقیق کا متبادل نہیں۔ پرویز صاحب کے مذہبی ذہن کا ایک اور پہلو ان کا نظام ربوبیت ہے اس کا پورا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرویز صاحب نے صوفیوں کو کریڈٹ دیئے بغیر ان کے اہم تصورات کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور ان کی بنیاد پر ایک پورے طرز حکومت کی عمارت تشکیل دینے کی کوشش کی ہے ایک اسلامی ریاست کا خاکہ بنایا گیا ہے یعنی ایک روشن خیال ریاست کی بجائے اپنے فہم اسلام کی ایک مذہبی ریاست کا تصور پیش کیا گیا ہے اور اصرار کیا گیا ہے کہ 1400  سالوں میں اسلامی ریاست کا یہ تصور کسی دماغ میں نہیں آیا کیونکہ سب عجمی سازش میں پھنس گئے تھے انھوں نے عجمی سازش کے نام پر اسلامی تاریخ کے ایک بڑے حصے کو بھی رد کیا اور تاریخ میں اماموں اور علما کے بڑے علمی کاموں کو بھی مسترد کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ جناب پرویز صاحب کے بارے میں میرے ذات ی تاثرات تھے کیونکہ یہ کوئی باقاعدہ علمی یا تنقیدی جائزہ نہیں ہے اس لئے ہو سکتا ہے بعض مقامات پر غلط ہو، اسے پرویز صاحب کے غیر جانبدار مطالعہ کا ایک آغاز سمجھا جا سکتا ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”جناب غلام احمد پرویز،ایک ذاتی تاثر۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم

  1. بہت خوب جناب آپ نے مکالمہ میں پرویز صاحب کے حوالےسے سے اچھی تحریر لکھی ہے علمی کام کا کسی نہ کسی طور آغاز تو ہوا میرے نزدیک پرویز صاحب نے قرآن فہمی کا جو پودا لگایا تھا آج وہ تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے اب ہر سمت سے قرآن فہمی کی آوازیں ابھر رہی ہیں ورنہ ہم تو اسی روایتی جا مد مذہب کے تنگ تاریک اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے اگر علامہ پرویز جیسے مفکر قرآن نہ ہوتے
    پرویز صاحب نے بحر طور قرآن فہمی کا دروازہ کھولا

  2. جو آدمی بھی یہ کہتا ہے کہ 1400 میں جیسے قرآن و سنت اسے سوجھا اس سے پہلے کسی دماغ میں نہیں آیا تو وہ فتنہ اور داعی الی دعاة جہنم ہے اسلام کی ایک کڑی دوسری کڑی سے اور ایک قرن دوسرے قرن سے جڑا ہوا ہے اور تعامل امت /تواتر سے ہٹ کر سب گمراہی ھے
    اگر ایسا نہ ہوتا تو خوارج کو . بد ترین خلائق نہ قرار دیا جاتا اور نہ ان سے حضرت علی تاویل قرآن پر لڑائی کرتے کہ ذاتی اعمال میں وہ ان سب متجددین سے زیادہ نیک اور باعمل تھے

  3. پرویز اور اس جیسے دوسرے منکرین حدیث کا ایک پس منظر ھے جس کا مطالعہ کرنا از بس ضروری ھےان میں سے مختلف مسالک کے فقہی مکاتب فکر سر فہرست ھیں۔جنھوں اپنے مسلک کے خلاف حدیث پاکر مصنوعی قسم کے اعتراضات لگا کر اپنے مسلک کا بزعم خوددفاع کیا۔لیکن ایسے لوگوں کے لئے ایک میدان مہیا کیا۔دوسرا محرک وہ رد عمل ھے جو کم پڑھے لکھے قصہ گو ملاووں اور صوفیوں کے وعظوں سے پیدا ھوا جو حدیث کے نام پر خرافات بیان کرتے ھیں اور پرویز جیسے لوگوں نے زیادہ تر اپنے دلائل میں وہی کہانیاں دہراتے رہتے ھیں۔

Leave a Reply