کافر یا لبرل۔۔خرم خان

ہمارے یہاں اکثر یہ  دیکھا جاتا ہے کہ  اگر کوئی شخص اپنے کم یا زیادہ دینی فہم کے مطابق کسی ”دیندار“ ،”مذہبی“   شخص سے کوئی مذہبی بات پر اختلاف کرلے  یا نہ   مانے ،کیونکہ اُس کو بات سمجھ نہیں  آئی  تو   اُس کو بڑی آسانی سے   مذہب سے نکال دیا جاتا  ہے”کفر“ کا  فتویٰ لگا کر۔  اور یا مذہب سے نہیں  بھی  نکالا جاتا  تو کم از کم   تضحیک کے انداز میں  اُس کو ”لبرل“  کہہ کر پکارا جانا شروع کرد یا جاتا ہے۔ 

میں بڑے احترام کے ساتھ  اُن سے پوچھنا یہ چاہوں گا کہ اُن کو ”کافر“اور ”لبرل“  کی تعریف بھی پتا  ہے ؟  میں کافی اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں  کہ اگر اُن کو واقعی پتا ہو تو وہ  اختلاف کرنے والوں کو کم از کم یہ القاب دینا شاید  چھوڑ دینگے اور اس کی جگہ کچھ اور القاب سے نوازیں گے، کیونکہ القاب دینا وہ   سمجھتے ہیں کہ اُن کا حق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شاید   سرٹیفکیٹ آف اتھارٹی جاری کیا ہوا  ہے اُن کو، تاکہ لوگوں کو مختلف  القاب دیے جا سکیں،  اگر وہ ان کی بات سے  اتفاق نہیں  کرتے ۔۔مگر سرٹیفکیٹ  مانگیں تو کبھی دکھا بھی  نہیں  پائیں گے  ۔ 

”کفر کرنا“ یا ”کافر“   کس کو کہا   جاتا ہے؟

کفر کے لُغوی معنیٰ ہیں: 

 کِسی چیز کو ڈھانپنا، کِسی چیز کو چُھپانا، اِسی معنی ٰ اور مفہوم کی بِناء پر کاشت کار (کسان ، کھیتی باڑی کرنے والے)کو “کافر” کہا گیا ۔ (محدث فورم)

کفر کے معنی چھپانا اور مٹا نا ہے اسی لیے جرم کی شرعی سز اکو کفارہ کہتے ہیں کہ وہ گناہ کو مٹادیتا ہے [مثال کے طور پر]  ایک دوا کانام کافور ہے کہ وہ اپنی تیز خوشبو سے دوسری خوشبوؤ ں کو چھپالیتا ہے۔ ( آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا

یعنی   چُھپانے کے مفہوم  کے  ہیں۔تو یعنی  کسی چیز کو ، یا کسی بات کو یا معلومات کے چھپانے والے کو بھی کافر کہا جا سکتا ہے ۔  اور اسی مفہوم میں ہی قرآن نے بھی صرف اُن لوگوں کے لئے ہی استعمال کیا ہے جو جانتے بوجھتے گھمنڈ میں آکر   اس حقیقت کو چھپاتے اور  اِس  کا انکار کرتے تھے کہ  رسول اللہ ﷺ   ایک خدا کےا یک سچے  رسول ہیں اور وہ جو  قرآن کی آیتیں پہنچا رہے ہیں وہ خدا کا ہی کلام ہیں۔

  اسی  ضِمن میں دو قرآن کی آیات پیش خدمت ہیں  جو کہ اس بات کو واضح کر دیتی ہیں کہ کافر کن لوگوں کو کہا جاتا ہے:

”بہت سے اہل کتاب ِ محض اپنے جی کے حسد کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ تمھارے ایمان لانے کے بعد وہ پھرتمھیں کفر کی طرف پلٹا دیں، اِس کے باوجود کہ حق اُن پر اچھی طرح واضح ہو چکا ہے۔ سو اُن سے درگزر کرو  اور نظر انداز کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ بے شک، اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ قرآن  ۲ : ۱۰۹

”اللہ ان لوگوں کو کس طرح بامراد کرے گا جنھوں نے ایمان کے بعد کفر کیا درآں حالیکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول سچے ہیں اور ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں بھی آ چکی ہیں اور اللہ ظالموں کو بامراد نہیں کرے گا۔“ قرآن ۳ : ۸۶ 

یہ الفاظ “باوجود کہ حق اُن پر اچھی طرح واضح ہوچکا ہے،اور حالا نکہ  وہ جانتے ہیں   کہ یہ رسول سچے ہیں “صرف اور صرف وہی ذات بول سکتی ہے، جو دلوں میں جھانک کر دیکھ کر بول سکے کہ اُن کے دِل میں کیا ہے، ہم میں سے تو کسی کے پاس یہ صلاحیت ہے ہی نہیں، اور نہ  کبھی ہوگی کہ دِلوں کا حال جان سکیں اور یہ کہہ سکیں کون واقعی کتنا حق بات کو جان چکا ہے دل سے اور پھر بھی جُھٹلانے پر تُلا ہوا  ہے اور مان نہیں  رہا ہے۔   تو ہم کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ کسی کے نہ ماننے  پر لوگوں کو کافر قرار دیں  اور اسی بنا پر ہم کسی بھی شخص کو جو  اپنے آپ کو مسلمان نہیں  کہلاتا  اُس کو صرف اور صرف غیر مسلم کہیں گے اور کچھ نہیں ۔

”لبرل“  کسے کہتے ہیں؟

”لبرل“ کے لغوی معنیٰ ہیں:

آزاد خیال ، آزاد ، آزاد روُ  (ہماری ویب لغت)

Favoring or permitting freedom of action, especially with respect to matters of personal belief or expression (dictionary.com) 

اگر  لفظ کی لغوی تعریف پر غور کیا جائے تو سوائے اس بات کے اور کیا مطلب نکلتا ہے کہ  ایک انسان اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ دوسرے انسان کو یہ  آزادی  حاصل ہے کہ وہ  جو چاہے اپنی  رائے قائم کرے اور  کوئی عقیدہ  بھی  اختیار کرے چاہے کسی کی نظر میں غلط   یا صحیح ہو۔  یہ ایک بنیادی حقوق میں سے ایک  حق ہے جو ہر  انسان کو حاصل ہے اور  اُس کو یہ حق اُس کے پروردگار نے دیا ہے ،  اور یہ حق کوئی اس سے چھین نہی سکتا۔  

قرآن مجید کی آیات ملاحظہ ہوں  اللہ تعالیٰ  کے  دین کو اختیار کرنے  کے معاملے میں:

“دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہو چکی ہے تو جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “قرآن  ۲: ۲۵۶

  اللہ رب العزت  نے تو اپنے دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں  رکھا، دین کو منوانے میں تو  ہم اور آپ کون ہوتے ہیں کہ اگر ہماری بات نہیں  مان رہے تو   ”لبرل“  کے لقب تضحیک کے طور پر  دیے جائیں  حالانکہ سب یہی خود بھی پسند کرتے ہیں کہ وہ  اپنی مرضی سے کسی بات کو مانیں یا رد کردیں۔ یا تو انسان غلام پیدا ہوں تو جو بول دیا جائے بس مان لیں جو کہ اس دنیا میں اب  تو بہرحال نہی ہوتا۔ ہاں مگرکچھ  ”مذہبی“ ”دیندار“  گروہ ایسے ضرور ہیں جو اندھی تقلید کرتے ہیں یعنی زیہنی غلامی  کرتے ہیں تو وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی کسی کی  ذہنی غلامی کریں  اور جو نہیں  کرتے تو  وہ ”لبرل“ کہلائے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے  آزاد پیدا کیا ہے، اس نے ہم کو ہر قسم کی آزادی دی ہے کہ جو چاہے مذہب اختیار کریں اور یا ہر طرح کا مذہب رد کردیں ۔ اسی طرح جو چاہیں رائے اختیار کریں اور جس بات  کو دل مانتا ہے اس  کو مانیں یا  نا  مانیں۔ ہم کو اگر کسی کی رائے یا عقیدہ میں غلطی نظر آتی ہے تو ہم اپنی رائے  دلیل  اور شائستگی سے دے دیں  اور کوشش کریں کہ غلطی واضح ہوجائے ، بس اتنا ہی ہم سے مطلوب ہے اور کچھ نہیں ۔ کسی پر اپنی رائے تھوپنا اور ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات منوانے  اور کوئی  نہیں  مانے تو مختلف القاب سے پکارنے کا ہمیں  کوئی حق حاصل نہیں ۔

Facebook Comments

خرم خان
شعبہ سوفٹوئیر انجئینیرنگ سے تعلق ہے میرا۔ مذہب کے فہم کو بڑھانے کے لئے قرآن کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ اسلام کے مختلف اہل علم کی رائے اور فہم کو پڑھ اور سن کر اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مذہب میں تقلیدی رویے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اور عقل کے استعمال کو فروغ دیتا ہوں جیسا کہ قرآن کا تقاضہ ہے، اور کسی بھی فرقے سے تعلق نہی رکھتا، صرف مسلمان کہلانا پسند کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply