بارسلونا کی مسجد اور احتجاج۔۔ولائیت حسین اعوان

سپین میں مسلمانوں کی تعداد 2 ملین یعنی 20 لاکھ کے قریب ہے۔جبکہ اس مسلم آبادی میں 40 فیصد ہسپانوی باشندے (جو مسلمان ایک عرصہ رہنے کے بعد یہاں کی قومیت لے چکے ہیں) ہیں اور 60 فیصد تارکین وطن ہیں۔ ان 60 فیصد تارکین وطن میں سے 40 فیصد مراکشی تارکین وطن اور 20 فیصد دیگر ممالک کے تارکین وطن ہیں۔ اسپین میں ہسپانوی اور مراکشی باشندوں کے بعد سب سے بڑی تعداد پاکستانی مسلم تارکین وطن کی ہے۔جبکہ ان کے بعد سینیگالی مسلم ہیں۔الجیریا بنگلہ دیش انڈیا کے بھی مسلمان یہاں آباد ہیں۔صوبائی اور ڈویژنل سطح پر سب سے زیادہ مسلم آبادی صوبہ کاتالونیا میں ہے، جو کہ 5 لاکھ سے زائد ہے۔
کاتالونیا کا صدر مقام دنیا کا مشہور شہر اور یورپی یونین کے آبادی کے لحاظ سے بڑے شہروں میں شمار ہونے والا شہر بارسلونا ہے۔جسکی آبادی 47 لاکھ سے زائد ہے۔5 لاکھ کے قریب مسلم آبادی صوبہ کاتالونیہ میں آباد ہیں اور 3 لاکھ سے زائد مسلمان بارسلونا شہر میں رہتے ہیں جن میں سے زیادہ تعداد مراکشی مسلمانوں کی ہے۔اسزلیے  مراکشی لوگوں کی قائم کی گئی مساجد کی تعداد بھی زیادہ ہے۔اور ان کے زیر انتظام مشہور مسجد “مسجد طارق بن زیاد” بارسلونا کے سینٹر میں واقع ہے۔پاکستانیوں کے زیر انتظام مساجد میں تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کی طرف سے قائم کی گئیں مساجد قابل ذکر ہیں۔دعوت اسلامی بھی پاکستانی مسلمانوں کی خدمت میں پیش پیش ہے۔

آج کے اس کالم کا مقصد سپین بارسلونا کی ہسٹری بتانا مقصود نہیں بلکہ ایک ایسا مشاہدہ اپنے پاکستان میں رہنے والے دوستوں کے گوش گزار کرنا ہے جس کو پڑھ کر شاید آپ لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہو۔
ابھی حال ہی میں میرے پڑوس میں مراکشی مسلمانوں نے مل کر ایک نئی مسجد کی منظوری حاصل کی۔اور ایک بلڈنگ کی سب سے نچلی منزل میں مسجد کے لیے  جگہ حاصل کی۔تین    جمعہ کی نمازیں یہاں   پڑھائی جا چکی ہیں۔
جس دن سے یہاں نمازوں کی ادائیگی شروع ہوئی ہے۔چند  سپینش افراد مل کر  جن میں مسجد کے قرب و جوار کے کچھ رہائشی بھی شامل ہیں رات کو مسجد کے سامنے اس کی منظوری کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں۔ڈھول اور باجے بجا کر   تقریباً ایک گھنٹہ احتجاج کرتے ییں۔اس دوران محلے والوں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔جتنی دیر وہ احتجاج کرتے ہیں اتنی دیر پولیس کے چند لوگ وہاں اپنی ڈیوٹی دیتے ہیں اور واپسی پر سر درد لے کر جاتے ہیں۔

مزے کی بات یہ کہ نہ محلے والے اور نہ مسجد والے ان احتجاجی دیوانوں کو منع کرتے ہیں کہ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔نہ یہ دیوانے اس بےہنگم شور سے تجاوز کر کےکسی کو جسمانی نقصان کا سوچتے ہیں یا کوئی چیز توڑنے تباہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔جن جن لوگوں کو مسجد بننے پر اعتراض ہے انھوں نے اپنے گھر کے اوپر احتجاجی بینر لگا رکھے ہیں۔
” No Mezquita “بس اور کچھ نہیں۔

جمعہ کی ادائیگی کے دوران ان کی طرف سے مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ایک دو  بزرگ اپنی بالکونی میں کھڑے ہو کر بس خاموشی سے مسجد آنے جانے والوں کو دیکھتے ہیں۔نہ کوئی شخص متعصب جملے بول کر آوازیں لگاتا ہے۔نہ نماز کی ادائیگی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔اور نہ کوئی پتھر پھینکتا ہے۔نہ ہمارے گھروں کا گھیراؤ  کر کے گھر جلانے کی دھمکی دیتا ہے۔کہ ہمیں بھی سپین کے شہری کی حیثیت سے ان جتنے ہی حقوق حاصل ہیں۔نہ ہی  کسی چرچ سے اوئے۔۔۔۔کے نعرے بلند ہوئے۔

مسجد کی انتظامیہ بھی محلے والوں کے تحفظات کا خیال رکھتے ہوئے اور انکی سہولت کا خیال کرتے ہوئے نماز پڑھ کر باہر نکلنے والے ہر شخص سے یہی درخواست کرتی ہے کہ سڑک فٹ پاتھ پر کھڑے ہونے کے بجائے خاموشی سے گھر تشریف لے جائیں تا کہ محلے والوں کو مزید شکایت کا موقع  نہ ملے۔یا کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔ہم لوگوں کی اکثر یہ عادت ہوتی ہے کہ مسجد سے باہر نکل کر میل ملاقات اور گپیں لگانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔اور روڈ سے گزرنے والے دوسرے لوگوں کو بھول جاتے ہیں۔

باہمی ہم آہنگی احترام احساسات اخلاقیات ہی مختلف اقوام،مذاہب، مسالک ،تہذیب کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا رہنے میں معاون و مددگار ہو سکتے ہیں۔شدت کسی بھی معاملے کا بگاڑ تو ثابت ہو سکتی ہے تریاق کبھی نہیں۔
مسجد کے نمازی بلا جھجک نماز ادا کرتےہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا اور امید رکھتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے چند لوگ بھی اپنے تحفظات حل ہونے کے وعدے پر اپنا احتجاج کچھ دنوں بعد ختم کر کے مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو آتے جاتے ہنستے مسکراتے ہیلو ہائے کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply