• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کشمیریوں کو ریڈ انڈین بنانے میں راجہ فاروق حیدر صاحب کا بھی اہم کردار ہے/قمر رحیم

کشمیریوں کو ریڈ انڈین بنانے میں راجہ فاروق حیدر صاحب کا بھی اہم کردار ہے/قمر رحیم

5اگست2019ء کو بھارت نے دفعہ 370اور 35Aکی منسوخ کر کہ اپنے زیر قبضہ ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کر تے ہوئے اسے یونین ٹیریٹری بنادیا۔اس فیصلے پر ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے بھارت نے کشمیر کی جملہ آزادی پسند قیادت کو جیلوں ڈال رکھا ہے۔سیکیورٹی فورسز کی تعداد بھی بڑھا دی گئی ہے ۔ مسئلہ کشمیر بارے تحریرو تقریر پر مکمل پابندی ہے۔اس موضوع پر معمولی سی ٹویٹ یا پوسٹ کرنے پر لوگوں کو جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ کئی ایک صحافی اس پاداش میں جیلوں میں بند ہیں۔حتیٰ کہ گلی محلے میں بھی بھارت کے کسی بھی اقدام کو زیر بحث لانے والوں کو پولیس اٹھا لے جاتی ہے۔خوف اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانے والا اب کوئی نہیں رہا۔ پوری وادی میں قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ کشمیری زبان ، کلچر اور تاریخ کو سرکاری سرپرستی میں ختم کیا جا رہا ہے۔ہر وہ نشانی جو کشمیر کی تاریخ یا کلچر کی گواہی دے رہی ہے اسے مٹایا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ جگہوں کے نام تک تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ اسمبلی میں جموں صوبہ کی سیٹیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ چار لاکھ سے زاید انڈین شہریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر دیے گئے ہیں۔ امرناتھ ہندوؤں کا ایک مقدس مقام ہے جہاں 2000کی دہائی سے پہلے دو دن کے لیے ہندو یاترا کے لیے جاتے تھے۔ اب یہ یاترا دو ماہ تک جاری رہتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل انڈیا کے وزیر داخلہ نے یہ کہا تھا کہ ہندوؤں کو شاردا دیوی مندر تک رسائی دینے کے لیے کنڑول لائن پر ایک کوریڈور قائم کیا جائے۔ جس کے حق میں ہماری دانا قیادت نے آزاد کشمیر اسمبلی میں اپریل 2023ء میں ایک قرارداد بھی پاس کی تھی۔جو بعد میں واپس لے لی گئی۔
بھارت کے یہ تمام اقدامات اور کوششیں کشمیر پر سیاسی، مذہبی اور ثقافتی یلغار ہیں۔دراصل بھارت کشمیر میں اسرائیل کے ماڈل پر کام کر رہا ہے۔اس ضمن میں دونوں ممالک کا آپس میں اتحاد ہے۔گولڈ اسمتھ یونیورسٹی لندن کی پروفیسر اکنکشا مہتا اس اتحاد کو right wing sisterhoodکا نام دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان دونوں ممالک میں ایک چیز جو مشترک ہے وہ settler colonialismہے۔دونوں ملکوں نے مقامی آبادیوں پر فوجی قبضہ کر رکھا ہے اوروہ ان کے کنٹرول میں ہیں۔آسٹریلوی سکالر Patrick Wolfeکے مطابق settler colonialismطاقت کی بنیاد پر قائم کیا جانے والا ایسا نظام ہے جس میں زیر تسلط علاقے کے لوگوں کا قتل عام کیا جاتا ہے، ان کے کلچر اور تہذیب کو بتدریج مٹا کر وہاں غیر مقامی لوگوں کو آباد کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا میں settler stateنے مقامی لوگوں کا قتل عام کیا، ان کی زبان اور کلچر کو ختم کیا اور وہاں نئے ، غیر مقامی لوگوں کو آباد کیا۔
بھارت کشمیر میں اسی خوفناک ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ بقول حامد میر جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے کشمیر بھارت کو فروخت کردیا۔اب اس ضمن میں کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہا۔پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت سے ہمیں کوئی توقع تھی، نہ اب ہے ۔ اس لیے ہمارا ان سے کوئی گلہ بھی نہیں۔ گلے شکوے جنہوں نے کیے ان کی بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر صاحب واحدلیڈر ہیں جنہوں نے بر سر اقتدار رہتے ہوئے بھی کافی حد تک کشمیریوں کی ترجمانی کا مشکل کام کیا۔کبھی بے خوفی سے حقائق بیان کیے تو کبھی رو کر۔ تیرہویں آئینی ترمیم ان کا ایک کارنامہ تھا، جو انہی کی جرأت اور حوصلے سے ممکن ہوا۔ اسی طرح میرٹ کی بحالی کے لیے NTSکا آغاز بھی انہی کے دور میں ہوا۔ اور ان کے دور حکومت کا تیسرا اہم کام انٹر سٹی روڈز کی تعمیر ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر کی قیادت میں اگر کسی کو ریاست کی تقسیم کا رنج ہے اور وہ اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہ فاروق حیدر صاحب ہی ہیں۔ الگ بات ہے کہ وہ گلے شکووں کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ایک کمزور اور محکوم انسان اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ اقتدار میں رہ کر بھی اگرہماری قیادت میں سے کسی کا ضمیر زندہ ہے تو یہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہے۔
مگر چند دن پہلے حامد میر کے ان کے بارے میں چند انکشافات پر بہت افسوس ہوا۔ حامد میر کے مطابق راجہ صاحب نے کہا کہ جب انہیں فیض حمید اور جنرل باجوہ کے بھارت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا علم ہوا تو وہ لندن گئے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو اس سے آگاہ کیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اس بات کو پبلک کیوں نہیں کیا؟ (اس وقت انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں آزاد کشمیر کا آخری وزیر اعظم ہوں)۔ تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح آفیشل سیکرٹس ایکٹ1933ء کی خلاف ورزی ہوتی۔اس ضمن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس موقع پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ ان کے لیے زیادہ اہم ہونا چاہیے تھا یا کشمیر پر ہونے والی اس سودا بازی کے خلاف آواز اٹھانا؟ دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب انہوں نے خاموشی اختیار کر لی تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے اس سودا بازی کو تسلیم کر لیا۔ان کا جواب غالباً یہ ہو گا کہ ہمارے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے بھارت اورپاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کیوں نہیں پڑے گا؟ اگر آزاد کشمیر کے ایک لاکھ لوگ سیز فائر لائن پر دھرنا دے دیں، دس ہزار آدمی وہاں مارے جائیں تو تو کون سی طاقت ہے جو کشمیر پر کوئی سودا بازی کر سکے؟
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگ قربانی دے چکے اور مزید بھی دینے کو تیار ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے لوگ بھی تیار ہیں۔ لیکن کیا فاروق حیدر صاحب اقتدار کے جھولوں کی امیدوں اور خوابوں کی قربانی دے سکتے ہیں؟انہوں نے ایک مرتبہ اپنا خواب سنایا تھا کہ ان کی نانی نے انہیں نیلی پگڑی والوں کے لشکر میں شامل ہو کر کشمیر کو آزاد کراتے دیکھا ہے۔ جناب راجہ فاروق حیدر صاحب اس خواب کا یہاں پہ تذکرہ آپ پر طنز نہیں ہے۔یہ ہمارے دل کی آواز ہے۔کیا G-20کے اجلاس کے موقعہ پر آپ کو نیلی پگڑی پہن کرسیز فائر لائن کی طرف مارچ کی کال نہیں دے دینی چاہیے؟راجہ صاحب! اقتدار کے جھولوں میں بیٹھ کر آزادی کے خواب نہیں دیکھے جاتے ۔ ہمیں ایموشنلی بلیک میل کرنا چھوڑ دیجئے اور اس بات کا اقرار کر لیجیے کہ کشمیریوں کو ریڈ انڈین بنانے میں آپ کا حصہ بھی ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply