کالاباغ ڈیم، جس پر کبھی اختلاف نہیں تھا/انجینئر عمران مسعود

کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر تمام صوبے متفق تھے اور ان کے وزرائے اعلیٰ نے اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
پھر آخر کیا ہوا کہ اختلافات کی دھول میں اس ڈیم پر کام آج تک شروع نہ ہوسکا؟
آخر پختونخوامیں اس کی مخالفت کیسے پیدا ہوئی اور اس کے خلاف مہم چلانے کے لیے کس نے طلبا کو تنخواہ پر بھرتی کیا؟
کیا کالاباغ ڈیم کے لیے زمین نواب آف کالاباغ نے عطیہ کی تھی؟

آج کالاباغ ڈیم کی تباہ ہوتی کالونی دفاتر اور زنگ آلود مشینری صاحبانِ  اقتدار کی منتظر ہے،لیکن افسوس کہ ہمارے قائدین نے اپنے  مفادات کی خاطر قومی سلامتی کو پسِ  پشت ڈالا ہواہے۔
کالاباغ ڈیم کا مجوزہ مقام میانوالی کے علاقہ کالاباغ کی حدود میں واقع ہے۔
کالا باغ ڈیم کی پیداواری صلاحیت 3400 میگاواٹ جبکہ
ڈیم سے بجلی کی پیداوار کی لاگت 2روپیہ فی یونٹ آئیگی۔

2004ء میں کالاباغ ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 6 ارب ڈالر لگایا گیا،اب تک اربوں روپے اس پراجیکٹ پر خرچ کیے جا چکے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کے لیے مجوزہ زمین دراصل نواب آف کالاباغ کی ملکیت تھی۔
1958ء کے مارشل لاء کے بعد جب ملک میں زرعی اصلاحات نافذ ہوئیں تو نواب آف کالاباغ نے کالا باغ کی زرعی جائیداد میں سے 22 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین زرعی کمیشن کے سپرد کر دی۔ اس وقت تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ زمین ڈیم کے لیے انتہائی موزوں قرار پائے گی۔

ایوب خان کے حکم پر ڈیموں کے لیے جب سروے کروایا گیا تو کمیشن نے منگلا, تربیلا اور کالاباغ کے مقام تجویز کیے۔ ابتدائی طور پر تربیلا اور منگلا کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا جبکہ کالاباغ ڈیم کی چونکہ لاگت کم تھی اس لیے اسے بعد میں تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بالآخر چاروں صوبوں کے وزائے اعلیٰ نے مشترکہ مفادات کونسل میں پانی کی تقسیم کے معاہدے پر 16 مارچ 1991ءکو دستخط کیے اور باقاعدہ طور پر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولہ منظور کیا۔ طے پایا کہ دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں پر کالا باغ ڈیم سمیت چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ میرافضل خان ،عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ولی خان،سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نےڈیم کی حمایت میں بیانات دیے اور مشترکہ لائحہ عمل کا اعادہ کیا لیکن پھر کیا ہوا؟ یہ اتفاق و اتحاد دشمن کو ہضم نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ہی برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی اور نوشہرہ کے مکانوں کی چھتوں پر نشان لگانے شروع کر دیے۔ خبر پھیلی کہ کالاباغ ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ جبکہ یہ امر قابلِ  غور ہے کہ وہ نشانات ڈیم کی سیٹلائٹ امیجنگ کے لیے تھے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کی جا سکے اور گراؤنڈ بریکنگ کے بعد کام کا آغاز ہو سکے۔ اس وقت سیٹلائٹ امیجنگ چند ایک ممالک کے پاس اور صرف چند ایک مخصوص مقاصد کے لیے ہی ممکن تھی۔ پاکستان مخالف لابیز متحرک تو پہلے ہی تھیں لیکن انہیں ایک موقع مل گیا عام عوام کو گمراہ کرنے کا۔ مخالفت کی ایسی آندھی چلی کہ آج کالاباغ ڈیم کا نام لیں تو لوگوں کے سینوں میں نفرت کی آگ لگنی شروع ہو جاتی ہے۔

صرف ایک واقعہ بیان کرنا یہاں ضروری ہے کہ پشاور یونیورسٹی کے طلباء کو باقاعدہ تنخواہ پر رکھا گیا جو کہ روزانہ کی بنیادوں پر نوشہرہ شہر جاتے اور کھمبوں پر چڑھ کر نشانات لگاتے۔ پھر اس علاقہ سے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا اور انہیں یہ نشان دکھا کر کہا جاتا کہ اگر کالاباغ ڈیم بن گیا تو پانی یہاں تک آ جائے گا۔ سادہ لوح لوگ اس پراپیگنڈا کیمپین کا حصہ بن گئے اور یوں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ سرد خانے کی نذر ہوگیا۔ آج تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا کہ کون پشاور یونیورسٹی کے طلباء کے اخراجات برداشت کر رہا تھا؟ اور کون انہیں اس ساری کہانی سازی کے پیچھے تھا؟

اس کے بعد   5-2004   میں پرویز مشرف صاحب کو بھی خیال آیا کہ اس ڈیم کو بنا دینا چاہیے لیکن نادیدہ وجوہات کی بنا پر مشرف صاحب بھی اس منصوبہ کا افتتاح نہ کر سکے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ء کو وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“ انھوں نے مزید کہا، “صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید اس سے بڑی قوم کی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ،ہمارے قائدین اپنی سیاست کے لیے قوم سے جھوٹ بولنے سے بھی   گریز نہیں  کرتے۔

Facebook Comments

انجینئر عمران مسعود
میں پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہوں. تاریخ, مذہب اور ادب و فنون سے دلچسپی رکھتا ہوں. فارغ اوقات میں مصوری کا شغف ہے. بطور لکھاری تاریخ اور مذہب کو تنقیدی پیرائے میں دیکھنے اور لکھنے کو موضوع بناتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply