نوآبادیاتی نظام اور لبرل ازم 

عام غلط فہمی ہمارے ہاں یہ ہے کہ لبرل ازم یا نیو لبرل ازم بائیں بازو کی سوچ ہے جو صدیوں کے جمے جمائے نظریات پہ دوبارہ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔  ایسا کچھ بھی نہیں ہے سوچ محض سوچ ہوتی ہے اور آزادی فکر محض آزادی فکر۔ فکر کا سیل رواں کبھی کسی سیاسی نظریہ کا محتاج نہیں رہا۔ 

تمام سیاسی نظریات کے کچھ مقاصد ہوا کرتے ہیں اور کچھ مستقلات جو کہ متغیرات سے الگ ہوتے ہیں۔ لبرل تھیوری کا مستقل فرد کی لامحدود آزادی ہے جو بظاہر نہایت خوشنما ہے۔ لیکن کیا فرد کا حق ناقابل سمجھوتہ ہے؟ کیا ہوگا اس صورت میں جب ایک شخص اپنی مرضی/حق/ رائے منواتے دوسرے کا حق پامال کردے؟  مثلاً آپ کا آزادانہ بول و براز کا حق غیر مشروط ہے یا اس پہ کوئی پابندی عائد کی جا سکتی ہے؟  سماج کا مجموعی مفاد/ تہذیب/ پسند نا پسند یا ضروریات و عملی مجبوریاں اس حق کو محدود کرتی ہیں۔ 

لبرل تھیوری برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے اواخر میں برآمد ہوئی جس کی پشت پہ معاشی مفادات تھے۔ یہ معاشی مفادات عوام کے نہیں تھے بلکہ اعلی کلاس کے تھے اس میں برطانوی جاگیردار اور سرمایہ دار مشترک فیضیاب ہوئے۔ عملی طور پہ اس تھیوری کو نپولین کی جنگوں کے دور میں برطانیہ کی طرف سے آزامایہ گیا بلکہ یورپ کو برآمد کیا گیا۔  نپولین جتنا بھی برا تھا اس نے یورپ کی اعلی کلاس کو ایک چیلنج پیش کردیا اور وہ چیلنج تھا پیدائشی برتری کی بجائے میرٹ اور اہلیت کا اصول، غیر منطقی روایات کی بجائے منطقی اصولوں کی حکمرانی۔ اعلی کلاس کو اس سے خطرہ تھا لہذا یورپ کی تمام اعلی کلاس اس کے خلاف متحد ہوئی۔  دلچسپ امر جو ہمیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ نپولین کی قرضہ سے نفرت ضرب المثل تھی اور برطانیہ جو اس کے مقابلے میں واحد یورپی طاقت رہ گیا تھا، کا بال بال قرضے سے جکڑا ہوا تھا۔ 

بعینہ یہی وہ لمحہ تھا جب برطانیہ میں “پٹ دا ینگر” کی وزارت عظمی کے دور میں لارڈ کیسلریژ وزیرخارجہ بنا۔ کیسلریژ کی ذاتی شخصی نفاست ذہانت سے انکار کئے بغیر ہم اس کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیتے ہیں۔ لبرل تھیوری اسی کے دور میں جنم لے چکی تھی اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر لبرل تھیوری کو یورپ میں برآمد کرنا اور برطانیہ میں اس پہ پابندی عائد کئے رکھنا تھا۔ یہ پالیسی بے حد کامیاب ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ اندرونی خلفشار کا شکار ہوا خاص طور پہ فرانس۔ یہ وہی فرانس تھا جس سے انقلاب برآمد ہوا لیکن لبرل تھیوری اس طرح سے انجیکٹ کی گئی کہ فرانس میں ایک صدی تک جمہوریت ناکام رہی، تاآنکہ جنرل ڈی گال نے ۱۹۵۰ کے عشرے میں اپنی مرضی کا آئین بنانے کی شرط پہ حکومت سنبھالی۔ 

لبرل تھیوری نے نوآبادیاتی نظام کو بھی بہت نظریاتی سہارا دیا۔ اتنا سہارا کہ اگر یہ کہا جائے کہ لبرلز اصل میں نوآبادیات میں حکمرانوں کے نمائندہ ہوتے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ لبرل تھیوری کا بنیادی فلسفہ اجتماعی مفاد پہ ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کا ہے۔ اسے نوآبادیاتی طاقتیں ہمیشہ برآمد کرتی ہیں اپنے ملک پہ نافذ نہیں کرتیں۔ اس کا نتیجہ لارڈ ویلزلی اور میر قاسم یا میر جعفر جیسے تعلقات کی صورت میں نکلتا ہے۔ مثلاً لارڈ ویلزلی اور میر جعفر دونوں ہی لبرل تھے لیکن فرق صرف یہ تھا کہ لارڈ ویلزلی لبرل تھیوری کو انڈیا میں برآمد کررہا تھا اور میر جعفر لبرل تھیوری پہ عمل  کرتے ہوتے محض ذاتی مفاد کے لئے اس کو درآمد کررہا تھا۔ کیونکہ میر جعفر کے ذاتی مفادات ریاست یا ٹیپو سلطان سے ٹکراتے تھے تو اس نے بغاوت کی   میر جعفر یا میر قاسم آف بنگال کو غدار کیوں کہا جاتا ہے؟  تاریخ ہمیں غلط کیوں پڑھائی جارہی ہے صرف پاکستان ہی نہیں انڈیا میں بھی میر جعفر اور میر صادق کو غدار کہا جاتا ہے۔  کیوں ؟ کیا یہ ظلم اور زیادتی نہیں؟  وہ محض لبرلز تھے جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پہ ترجیح دی!  برصغیر کے نصاب کی اصلاح ہونا چاہیے۔ ہمیں تمام انڈیا اور پاکستان کے لوگوں کو اپنے گمنام لبرل ہیروؤں کو بھولنا نہ چاہیے۔ 

البتہ آخر میں برسبیل تذکرہ لبرلزم انڈیا میں برآمد کرنے والے ہیرو لارڈ ویلزلی کو بھی دیکھ لیں۔ یہ موصوف ٹیپو سلطان جیسے اینٹی لبرل کا خاتمہ کرنے کے بعد برطانیہ تشریف لے گئے نپولین کے خلاف جب برطانیہ چار گنا بڑی فوج لے کے میدان میں اترا تو اس یقینی فتح کا تاج ان کے سر پہ پہنانا مقصود ہوا۔واٹر لو کی  جنگ کے بعد ان کو ڈیوک آف ویلنگٹن کا خطاب مرحمت ہوا اس کے بعد جناب کی آخری خدمت ۱۸۴۸ میں سامنے آئی جب مانچسٹر میں مزدوروں نے احتجاج کیا تو اس نے مزدوروں پہ بے دریغ گولی چلوائی جس کو سانحہ پیٹر لو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

بہر حال  یہ لبرلازم کی ابتدا تھی اور اسی ۱۸۴۸ کے قتل عام سے اجتماعی مفاد یا سوشل/ معاشرتی مفاد کی تھیوری کارل مارکس لے کے آیا۔ بعد میں لبرلز کیا کرتے رہے وہ یقیناً تاریخ کے اوراق ہیں ۔ لیکن بلا تعصب ہمیں  لارڈ ویلزلی ، میر قاسم اور میر جعفر جیسے عظیم لبرل ہیروؤں کو سلام پیش کرنا چاہے کہ وہ لوگ اپنی سیاسی سوچ کے وفادار تھے۔  آج کے لبرلز کی طرح وہ بھی اتنے ہی اور ایسے ہی عظیم تھے 

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply