کینسر (97) ۔ موذی کی موت؟/وہاراامباکر

یہ سلسلہ کینسر کی جگ بیتی ہے۔ اور کسی بھی بائیوگرافی کو اپنے آخر میں ایک سوال کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ موت کا موضوع ہے۔ تو کیا ہم سوچ سکتے ہیں کہ مستقبل میں کبھی کینسر کی بھی موت ہو گی؟ کیا اس موذی کو ہمارے جسموں سے اور ہمارے معاشرے سے مٹا دینا ممکن ہو گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سوالوں کے جوابات اس بیماری کی بائیولوجی میں پیوست ہیں۔ ہم دریافت کر چکے ہیں کہ کینسر ہمارے جینوم میں سِلا ہوا ہے۔ اس کا سبب بننے والی میوٹیشن انہی جین میں ہیں جو ہمارے خلیات کے بڑھنے کے لئے لازم ہیں۔ جب کارسنوجن کے باعث ہمارے ڈی این اے کو ضرر پہنچتی ہے تو ان میں میوٹیشن کا سبب بنتی ہے۔ لیکن یہی کام اس وقت بھی ہو سکتا ہے جب خلیہ تقسیم ہوتے وقت کوئی رینڈم غلطی آ جائے۔ کارسنوجن کو روکا جا سکتا ہے لیکن اس کا دوسرا طریقہ، یعنی ہونے والی رینڈم غلطی کا کوئی تعلق باہر سے نہیں بلکہ ہمارے جسم کے اندر سے ہے۔ کینسر ہمارے بڑھنے میں ہونے والی خامی ہے لیکن یہ خامی خود ہم میں رچی بسی ہے۔ ہماری فزیولوجی کے پراسس میں جن پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے۔ عمررسیدہ ہونا، اعضاء کا دوبارہ بننا، زخم مندمل ہونا، نسل آگے بڑھانا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس نیچر کو سمجھ لینے کی انسانی خواہش کا نتیجہ ہے۔ اور ٹیکنالوجی نیچر کو کنٹرول کر لینے کی انسانی تمنا کا۔ ان دونوں کا آپس میں بڑا تعلق ہے لیکن نیچر میں تبدیلی کا کام ٹیکنالوجی کا ہے۔ میڈیسن ٹیکنالوجی کا فن ہے۔ اس میں انسان جس چیز میں ہاتھ ڈالتا ہے، وہ خود اس کی اپنی زندگی ہے۔
تصوراتی طور پر، کینسر کے خلاف جنگ ٹیکنالوجی کے آئیڈیا کو اپنے کنارے تک لے جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے لئے ہم جس چیز میں ہاتھ ڈالنا چاہ رہے ہیں، وہ خود ہمارا اپنا جینوم ہے۔
اور اس میں ایک مرتبہ ہاتھ ڈال دینے کے بعد نارمل اور ایبنارمل کی تفریق کر لینا مشکل ہو جائے گا۔ شاید کینسر کو ہمارے جسم سے جدا کر لینا ممکن نہ ہو۔ شاید کینسر ہمارے ہونے کی اور ہمارے وجود آخری حد کا تعین کرتا ہے۔ جس طرح خلیات تقسیم ہوتے ہیں اور جسم عمررسیدہ ہوتے ہیں اور میوٹیشن اکٹھی ہونی لگتی ہیں، کینسر ایک جاندار کی ڈویلپمنٹ کا انجام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ہم اپنا مقصد زیادہ عملی رکھ سکتے ہیں۔ ڈول کے آفس کے باہر تختی پر لکھا تھا، “بڑی عمر میں موت کی آمد ناگزیر ہے۔ لیکن اس سے پہلے نہیں”۔ یہ خیال زیادہ قابلِ عمل مقصد ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہم اس قدیم اور مہلک عارضے کے ساتھ جان لیوا رشے میں بندھے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہمارا چوہے اور بلی والا کھیل جاری رہے گا۔ لیکن اگر قبل از وقت ہونے والی اموات کم کی جا سکیں۔ اگر اس کا ہونے والا خوفناک علاج، مدافعت، واپسی اور مزید علاج کا چکر روکا جا سکے۔ علاج کی مدد سے اسے زیادہ سے زیادہ عرصے تک پیچھے دھکیلا جا سکے تو یہ ہمارا اس موذی سے رشتہ بدل سکتا ہے۔ اور اب ہم جتنا کینسر کے بارے میں جانتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا یہ عملی مقصد بھی ہماری ٹیکنالوجی کے لئے تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔ یہ ہماری اپنی سب سے بڑی کمزوری اور ہماری قسمت پر فتح ہو گی۔ ہماری یہ فتح خود ہمارے جینوم کے خلاف ہو گی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply