کرونا اور بلوچستان: کچھ سنجیدہ باتیں۔۔عابد میر

سنجیدہ اس لیے کہ اب تک جتنی غیرسنجیدگی ہم نے اس معاملے میں دکھائی ہے، اس کا نتیجہ بھگت بھی رہے ہیں اور شاید مستقبل قریب میں مزید بھگتنا پڑے۔ سو آئیے اس عالمی وبا اور اپنے گھرسے متعلق چند سنجیدہ باتیں کر لیتے ہیں۔

سماجی معاملات

پہلی بات یہ سمجھ لیجیے ہماری حکومت کی لاپرواہی اور غیرسنجیدگی کے باعث بلوچستان میں یہ وبا وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے، جسے اب ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ بلوچستان سے ہوتے ہوئے ہر ماہ بارہ ہزار سے زائد زائرین تفتان کے راستے ایران جاتے ہیں۔ شنید میں ہے کہ گزشتہ ماہ چار ہزار افراد قُم سےہو کر واپس آئے اور ان میں سے کسی کا کوئی ٹیسٹ نہیں کیا گیا، کہ تب تک خود ایران میں وائرس کی بڑے پیمانے پر موجودگی کی اطلاعات نہ تھیں۔ ایرانی حکومت نے بھی سخت لاپرواہی کی اور اس کا خمیازہ بھگتا۔

کرونا سے متعلق بنیادی تفصیلات اب لگ بھگ سوشل میڈیا کا ہر قاری جانتا ہے۔سو آپ بہتر جانتے ہیں کہ ایک شخص اگر اس وائرس سے متاثرہ ہے اور اسے اس کا علم نہیں تو وہ کم از کم دس مزید افراد کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یوں بلوچستان پہنچنے والے چار ہزار افراد میں سے اگر ایک ہزار بھی اس سے متاثر ہوں تو وہ اب تک کتنوں کو متاثر کر چکے ہوں گے، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مزید یہ کہ حکومت نے بروقت کسی قسم کی آگاہی مہم شروع نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب تک عوام اس وائرس کی تباہی سے کم حقہ آگاہ ہی نہیں۔ رجعتی حکومتیں اب بھی دعاؤں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں اور عوام کو بھی اسی کام پہ لگا رہا ہے۔ کوئٹہ کی مارکیٹیں مکمل طور پر فعال ہیں۔ ماسک اور سینٹی ٹائزر کا استعمال کہیں نہیں ہو رہا۔ بیماری کے ڈر سے ہاتھ نہ ملانا بلوچستان کے سماج میں آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ان رویوں کے ساتھ ہم اس انسانیت کش وائرس کو گویا گھر میں پال پوس رہے ہیں۔

فوری کرنے کے کام

سماجی سطح پر اب فی الفور جو کام کرنے کے ہیں، جو عام آدمی کے بس میں ہیں، کم از کم وہ کر لینے چاہئیں:
۰ احتیاطی تدابیر فوراً اپنائیں، جن کا تذکرہ ذرائع ابلاغ پہ بارہا کیا جا رہا ہے۔ ماسک کا استعمال، بار بار ہاتھ دھونا، ہاتھ ملانے سے گریز کرنا، عوامی میل جول کم کرنا، طبیعت خراب ہونے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا ، وغیرہ پر فوری عمل کرنا چاہیے۔

۰ اگر آپ کو دو وقت کی روٹی کی زیادہ فکر نہیں تو گھر سے نہ نکلنے کو فوقیت دیں اور اپنا وقت گھر پر اور گھروالوں کے ساتھ ہی گزاریں۔ روزی روٹی کے لیے باہر نکلنا ضروری بھی ہو تو مندرجہ بالااحتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں۔

۰ اپنے کام کی جگہ کو صاف ستھرا رکھیں۔ ضروری میل ملاقات میں بھی لوگوں سے فاصلہ رکھیں۔ ماسک اور ہاتھ دھونے کا اہتمام ہمہ وقت ساتھ رکھیں۔

۰ ہوٹلنگ ختم کر دیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات خاندان میں ہو رہی ہوں تو مؤخرکر دیں، دوست احباب کے ہاں بھی ہوں تو جانے سے احتراز کریں۔

۰ لوکل بس میں سفر کرنے سے گریز کریں۔

۰ ہر ممکن طور پر خود کو آئسولیشن میں رکھیں۔ اس وقت اپنی اوردوسروںکی زندگی محفوظ رکھنے کا یہی آسان ترین حل ہے۔

سیاسی معاملات

اس بڑی وبا اور آفت سے متعلق جو سنجیدگی حکومت کو دکھانی چاہیے تھی، ہماری حکومت اس میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ تفتان کے راستے آنے جانے والے زائرین کی ٹیسٹنگ ہی اتنی تاخیر سے شروع کی گئی کہ تب تک ہزاروں زائرین اپنے گھروں کو واپس پہنچ چکے تھے۔ مزید صورت حال یہ ہے کہ تازہ خبروں میں بتایا گیا ہے تفتان میں جن زائرین کو ٹیسٹ کے بعد کلیئر دے کر ان کے صوبوں کو روانہ کیا گیا تھا، ان میں سے صرف سندھ پہنچنے والوں کا دوبارہ ٹیسٹ کرنے پر نصف افراد کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ تفتان میں تعنیات عملہ چند ہزار روپے لے کر لوگوں کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کر رہا ہے۔ ایسی ہی کچھ خبریں ابتدائی دنوں میں بھی سننے میں آئی تھیں کہ سیکڑوں زائرین طبی و سکیورٹی عملے کو پیسے تھماکر وہاں سے نکل آئے تھے۔

حکومت اگر رتی بھر بھی سنجیدہ ہے تو اسے اس سلسلے میں فوری طور پر مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے چاہئیں:

۰ حکومت کے پاس زائرین کا ڈیٹا موجود ہے۔ فوری طور پر گزشتہ ماہ خصوصاً قُم سے ہو کر آنے والے زائرین کو تلاش کر کے ان کے ٹیسٹ کیے جائیں۔جو بھی شخص متاثر ہو اسے فوراً آئسولیشن وارڈ منتقل کیا جائے۔

۰ متاثرہ افراد کے خاندان کو مکمل طور پر آئیسولیٹ کر دیا جائے اور دورانِ علاج سرکار ان کے معمول کے اخراجات ادا کرے۔

۰ چائنا سے کرونا وائرس کے ماہرین بلائے جائیں اور متاثرہ افراد کے علاج کی ذمے داری انھی کو سونپی جائے۔

۰ تمام سرکاری دفاتر مکمل طور پر بند کر دیے جائیں۔ مارکیٹوں میں بھی آمدورفت محدود قرار دے دی جائے۔

۰ لوکل بسوں کی آمد و رفت معطل کی جائے۔

۰ دفعہ 144 کے نفاذ سے جو جو طبقہ معاشی طور پر متاثر ہو رہا ہے، حکومت ان کا معاشی ازالہ کرے۔

۰ آگاہی مہم کو سوشل میڈیا کے ذریعے وسیع پیمانے پر پھیلایا جائے۔

ساتھ ہی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ کام کرنے چاہئیں:

۰ اپنے اپنے علاقوں میں وائرس سے متعلق آگاہی مہم چلائیں۔ چھوٹے چھوٹے علاقوں میں وہاں کے ورکرز کو ذمے داری دیں کہ وہ عوام کو اس وبا سے متعلق آگاہ کریں۔

۰ حکومت پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بہتری کی تجاویز بھی دیتے رہیں اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے اس پر پریشر بنائے رکھیں۔

تعلیمی معاملات

اس حکومت نے وبا کی اطلاع کے ساتھ ہی اگر کوئی بہتر اقدام اٹھایا تو وہ تعلیمی اداروں کی بندش کا تھا۔ جو ابتدائی طور پر ہمیں بھی تعلیم دشمن اقدام لگا اور ہم نے اس پر تنقید بھی کی۔ لیکن اب لگتا ہے کہ مجموعی صورت حال کے تناظرمیں یہ بہتر فیصلہ تھا۔ اب تک کی صورت حال سے لگتا یہ ہے کہ تعلیمی ادارے شاید مزید بند رہیں۔ کیوں کہ اپریل کے آخر میں رمضان آ رہا ہے جو مئی کے آخر تک جائے گا۔ رمضان میں ہمارے ہاں عموماً پڑھائی کا رجحان کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد جون آجائے گا تو گرم علاقوں میں ویسے بھی تعطیلات شروع ہو جائیں گی۔صرف سرد علاقوں کے طلبا متاثر ہو سکتے ہیں، جس کے لیے حکومت کو کچھ ایسے اقدامات لینے چاہئیں جس سے طلبا کا وقت برباد ہونے سے بچ جائے۔

اس کے لیے ممکنہ طور پر مندرجہ ذیل اقدامات لیے جا سکتے ہیں۔

۰ پہلی سے نویں جماعت تک جہاں جہاں اس دوران امتحانات ہونا تھے، وہاں طلبا کو اگلے گریڈ میں ترقی دے دی جائے۔ پرائیویٹ سکولوں کو فیس لینے سے منع کیاجائے۔

۰ میٹرک کے طلبا کو پچھلے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے فرسٹ ایئر میں داخلے کی اجازت ہو۔ رہ جانے والے طلبا کو بھی فرسٹ ایئر میں مشروط داخلے کی اجازت ہو، ان کا داخلہ اگلے سال میٹرک کا امتحان پاس کرنے سے مشروط کیا جائے۔

۰ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ملتوی کر دیے جائیں۔ فرسٹ ایئر کے طلبا کو سیکنڈ ایئر میں ترقی دے دی جائے۔ سیکنڈ ایئر کے امتحانات اگست کے بعد معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دسمبر سے پہلے لیے جا سکتے ہیں۔ موجودہ فرسٹ ایئر سے آئندہ برس دونوں برس کے پیپرز ایک ساتھ لیے جائیں۔

۰ سمسٹر سسٹم کے تحت پڑھنے والے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبا کے لیے فوری طور پر آن لائن کلاسز کا انتظام کیا جائے۔ہر علاقے کے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے علاقے میں طلبا کے لیے آن لائن کلاسز کا اہتمام یقینی بنائیں۔ تاکہ تمام طلبا ان کلاسوں میں باآسانی شامل ہو سکیں۔

۰ آن لائن کلاسز کے ذریعے کریڈٹ آورز مکمل کیے جائیں۔ طلبا کا اسائنمنٹ اور کوئیز دے دیے جائیں۔ فائنل ایگزامز کو فی الحال ملتوی کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیے یہ وقت ایک دوسرے پر آوازے کسنے کا نہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کا ہے۔ نوعِ انسانی کا ارتقا ہمارا مشترکہ ورثہ ہے۔ عقائد و نظریات کے مباحث مشترکہ انسانی ارتقا سے بڑھ کر نہیں۔ انسان زندہ رہے گا تو ایک نہ ایک دن ارتقا کے کسی مشترکہ راستے کا انتخاب بھی کر ہی لے گا۔

Facebook Comments

عابد میر
عابد میر بلوچستان سے محبت اور وفا کا نام ہے۔ آپ ایک ترقی پسند سائیٹ حال احوال کے ایڈیٹر ہیں جو بلوچ مسائل کی نشاندھی اور کلچر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply