باغی ریاست اور دانشور حضرات۔۔سلیم احسن نقوی

باغی ریاست اور دانشور حضرات۔۔سلیم احسن نقوی/آپریشن سرچ لائٹ کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو ہمارے دانشور دوست یہ بات بہت شد و مد سے کرتے ہیں کہ اس میں ریاست نے ‘اپنے شہریوں’ پر ‘فوج کشی’ کی اور مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے ‘اپنے’ ہی لوگوں کا قتلِ  عام کیا۔ یہ بات سننے کو ملے یا پڑھنے کو، یہ بہت قابل ِ مذمت ہے۔ کیسے کوئی ملک اپنی فوج سے اپنی ہی آبادی کو قتل کروا سکتا ہے؟

پھر میں نے تھوڑا سا سوچا۔

مجھے خیال آیا کہ جن ممالک میں سزا ئے موت نافذ ہے ان میں موت کی سزا پانے والے 95٪ لوگ اسی ملک کے شہری ہوتے ہیں۔ اور اگر سزا ئے موت کو چھوڑ بھی دیں تو دنیا کے ہر ملک کی زیادہ تر جیلوں میں قید لوگوں کی غالب اکثریت اسی ملک کے شہریوں کی ہوتی ہے۔ تو اس بات پر کیا ہم کہتے ہیں کہ یہ کیسا ملک ہے کہ اپنے ہی شہریوں کو قید کرتا ہے؟ اسی طرح جب کسی ملک میں ناجائز تجاوزات گرائی جاتی ہیں تو ان تعمیرات میں زیادہ تر اسی ملک کے شہری رہ رہے ہوتے ہیں۔ کیا ہم اس وقت کہتے ہیں کہ کیسا ملک ہے اپنے ہی لوگوں کو بے گھر کرتا ہے؟

یہ بات سن کر ہمارے دانشور دوست کہیں گے کہ ان دونوں باتوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ قید کرنا، یا ناجائز طور پر تعمیر کیے گئے گھر مسمار کرنا الگ چیزیں ہیں؛ اور فوجوں کو اپنی آبادی پر چھوڑ دینا بالکل الگ۔ اس پر میں کہوں گا کہ ان باتوں سے میں نے یہ طے کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی شہری نے کچھ ناقابل قبول کام کیے ہوں تو ریاست ان کے خلاف کارروائی کرے گی اور کارروائی کرتے وقت یہ نہیں دیکھے گی کہ وہ ‘اپنے’ لوگ ہیں۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ ‘اپنے’ لوگوں پر ‘فوج کشی’ کرنا کتنا غلط ہے۔ اس سلسلے میں چند چیزیں دیکھ لیتے ہیں۔ اگر ملک میں کوئی طالب علم کسی وجہ سے کسی کو قتل کر دے تو وہ اس قتل کے بعد صرف ‘اپنا طالب علم’ رہے گا یا ‘قاتل’ کہلائے گا، جو قتل مرنے کی وجہ سے مروجہ قانونی سزا کا حقدار ہو جائے گا؟ اسی طرح اگر کوئی استاد ریاست میں رائج نظام کے خلاف ہتھیار اٹھا لے تو وہ محض استاد نہیں رہتا بلکہ ‘باغی’ کہلائے گا اور حکومت اس کے ساتھ باغیوں والا سلوک کرے گی (یہ الگ بات ہے کہ بغاوت اگر کامیاب ہو جائے تو پھر وہ ‘انقلاب’ کہلائے گی اور باغی کو لوگ ‘انقلابی’ کہیں گے۔ اور اگر کوئی ‘اپنا’ شہری ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لے تو وہ ‘اپنا’ نہیں رہتا وہ Enemy combatantہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، جیسے کہ  تحریک ِ قاتلان پاکستان کے خلاف لڑی گئی تھی۔

ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہInsurgentsبے شک کسی فوج کی طرح ریاست کا ادارہ نہیں ہوتے اور چاہے وہ فوج کی طرح قائدے قانون اورDisciplineکے پابند نہ ہوں لیکن ان کی بندوق سے فائر کی گئی گولی اپنے ہدف کے جسم کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو کسی دشمن ملک کے سپاہی کی بندوق سے فائر کی گئی گولی کرتی ہے۔ ان کی بچھائی گئی بارودی سرنگیں پھٹ کر اسی طرح اپنے شکار کی جان لیتی ہیں اور اپاہج بنا دیتی ہیں ،جیسی دشمن ملک کے فوجیوں کی بچھائی گئی بارودی سرنگیں۔

یہ بات درست ہے کہ ایسی نوبت آنے نہیں دینی چاہیے کہ ‘اپنے’ لوگ ریاست کے خلاف بندوق اٹھا لیں، یہ بھی درست ہے کہ معاملات کو بات چیت سے حل کرنا ہی عقلمندی ہے لیکن اگر ‘اپنے’ ہم وطن اپنی ہی ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف جنگ لڑنے پر آمادہ ہو جائیں تو ان پر ‘فوج کشی’ ریاست کی مجبوری ہو جاتی ہے۔ یہ وہ ریڈ لائن ہے جس کی پامالی دنیا کی کوئی ریاست برداشت نہیں کرتی ہے۔ یہ ریڈ لائن پار کرنے کا عمل دنیا بھر میں ‘غداری’ کہلاتا ہے اور اسے کرنے والے ‘غدار’ کہلاتے ہیں۔ (ہاں بغاوت کی طرح غداری کی کامیابی اسے قانونی حیثیت دے دیتی ہے اور جس طرح کامیاب بغاوت انقلاب کہلاتی ہے اسی طرح جو غداری کامیاب ہو جائے اسے ‘جنگ آزادی’ کہا جاتا ہے اور غدار کو Freedom fighterیا مکتی جودھا۔

اسی آپریشن کے حوالے سے جب دوستوں سے کہا جاتا ہے کہ قتلِ عام اور آتش زنی کی ابتداء  عوامی لیگ کی طرف سے 1 مارچ کو ہو گئی تھی اور فوج نے اپنی کارروائی 25/26 کی درمیانی رات کو شروع کی ہے۔ 3 یا 4 مارچ کو فوج کو چھاؤنیوں میں بلا لیا گیا تھا اور عوامی لیگ کے کارکنوں نے چھاؤنیوں کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور اس دوران کھانے پینے کی چیزیں تک چھاؤنیوں کے اندر نہیں جانے دی جا رہی تھیں۔ اس دوران پورے مشرقی پاکستان کا کنٹرول شیخ مجیب کے ہاتھوں میں تھا اور عوامی لیگ والوں نے پورے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں کا دل بھر کر قتلِ عام کیا اور خوب لوٹ مار اور آتش زنی کی تھی۔ پھر آپریشن کے دوران زیادتیاں دونوں طرف سے ہوئی تھیں ،تو وہ کہتے ہیں کہ بلوائیوں اور باغیوں کا عمل الگ چیز ہے لیکن ریاستوں اور ریاست کے اداروں کو ان کی سطح پر نہیں اترنا چاہیے۔ ان کے عمل اور رد ِعمل دونوں کو قانون اور اخلاقیات کی حدوں میں رہنا چاہیے۔

یہ بات اصولی طور پر درست ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے، لیکن یہ باتیں اس وقت تک لاگو رہتی ہیں جب تک حالات لاقانونیت اور انتشار کی ایک خاص سطح کے اندر رہتے ہیں۔ جب وہ لکیر پار ہو جائے تو ان حالات میں سب سے طاقتور کی بقا، یعنیSurvival of the fittestکا اصول لاگو ہو جاتا ہے۔ اور اگر یہ نہ اپنایا جائے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا بڑے پیمانے پر ایسا جانی اور مالی نقصان ہوسکتا ہے جس سے بچنا ممکن تھا۔

جب بلوے اور ہنگامہ آرائی باقائدہ مسلح بغاوت یا دہشت گردی میں بدل جائیں، اور جب ریاست خود، وہ ادارے جو ریاست کی نمائندگی کرتے ہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہدف بن جائیں تب باغیوں اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا مجبوری بن جاتی ہے۔

جب پولیس والے اور فوجی سویلینز کے خلاف حالت جنگ میں ہوں اور مخالف فریق نے وردی نہ پہن رکھی ہو، تو ان کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ عام شہری اور جنگجو میں فرق کر سکیں، خاص طور پر جب وہ کسی ایسے علاقے میں تعینات ہوں جہاں کے لوگ ان کے لیے اجنبی ہوں۔ ایسی صورت حال میں انہیں یہ بات ہر وقت حالتِ خوف میں رکھتی ہے کہ کب کوئی شخص اپنے ٹھیلے میں چھپی رائفل سے ان پر فائر کر دے۔ ایسی مسلسل خوف کی حالت میں باوردی اہلکارTrigger happyہو جاتے ہیں۔

جن حالات میں ریاستی اہلکار خود ہدف ہوں ان حالات میں ریاست اور اس کے اہلکاروں کو قانون کے دائرے میں رہنے کا مشورہ وہی دیتے ہیں جن کی اپنی جان کو باغیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا، اور جو ڈرائنگ روم میں آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر اصولی باتیں کر سکتے ہوں۔

اگر ان حضرات سے کہا جائے کہ ہم آپ کی بات سے متفق ہیں کہ ریاست کو باغیوں کی سطح پر نہیں اُترنا چاہیے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ باغی اپنی کاروائیوں سے باز نہیں آ رہے اور وہ ریاست کی طرف سے محتاط ردِ عمل کو اپنی کامیابی، اور ریاست کی کمزوری سمجھتے ہیں۔ وہ ہماری بات مان نہیں رہے ہیں۔ کیا آپ ہمارا یہ کام کر دیں گے کہ جب پولیس یا فوج کا کوئی دستہ ایسی جگہ گشت پر نکلے جہاں ان سب کی جان کو مسلح باغیوں سے خطرہ ہو تو آپ اس دستے کے ساتھ چلے جائیں اور جب باغی یا دہشت گرد ان پر فائر کھول دیں تو آپ آگے بڑھ کر ان کو سمجھائیے گا کہ اگر وہ فائر بند نہیں کریں گے تو پھر جواب میں یہ پولیس والے یا فوجی ان پر گولی چلائیں گے اور اس سے انسانی حقوق کی پامالی ہوگی جو بہت بُری بات ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ان دانشوروں کے سمجھانے سے باغی اور دہشت گرد مان جاتے ہیں تو بہت ساری جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی اور یہ ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اگر ہر حال میں قانون کی پاس داری کی بات کرنے والے دانشور باغیوں اور دہشت گردوں کو تشدد ترک کرنے کے لیے سمجھانے کو تیار نہیں ہوتے، اور اپنی اور اپنی اولاد کی جان خطرے میں ڈالے بغیر اپنے ملک کے قانون نافذ کرنے وانے اداروں میں کام کرنے والے دوسروں کی اولادوں کی زندگیوں سے بے پروا ہو کر انہیں قانون کے دائرے میں رہنے کی بات کرتے ہیں تو وہ دانشور محض کتابی اور Impracticalباتیں کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply