• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا کورونا واقعی ایک خطرناک وبائی مرض ہے یا ایک حیاتیاتی ہتھیار؟۔ غیور شاہ ترمذی

کیا کورونا واقعی ایک خطرناک وبائی مرض ہے یا ایک حیاتیاتی ہتھیار؟۔ غیور شاہ ترمذی

امریکہ اور چین کے درمیان جاری کشیدہ تجارتی جنگ اب اربوں، کھربوں ڈالرز کے تجارتی نقصانات سے آگے بڑھ کر حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری اور ایک دوسرے پر اُن کے استعمال کے الزامات تک پہنچ چکی ہے۔ امریکی سینیٹر ٹام کاٹن اس ضمن میں الزام لگا چکے ہیں کہ ’’ممکن ہے کہ کورونا وائرس چین کا حیاتیاتی ہتھیار ہو اور اسے ووہان کی لیب میں تیار کیا جا رہا ہو، جہاں پر پھٹنے کے بعد یہ پہلے چین میں پھیلا اور اب پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان چاؤ لژیان نے کہا ہے کہ یہ ’’امریکی مرض‘‘ ہے جو شاید اکتوبر میں امریکہ سے چین آنے والے امریکی فوجیوں کی وجہ سے پھیلا ہے۔امریکہ اور چین کے درمیان اس لگتی پھبتی لڑائی میں ایک طرف چین یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اسے سب سے طاقتور عالمی معیشت بننے سے روکنے کی کوششیں کر رہا ہے تو دوسری طرف یہ کوششیں اب کوئی راز نہیں ہیں اور امریکی صدر ٹرمپ بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکی کبھی بھی چین کو عالمی معشیت کا سربراہ نہیں بننے دے گا۔اگرچہ امریکی سینیٹر ٹام کاٹن بعد میں اپنی اس بات سے متفق نظر نہیں آئے کہ کورونا وائرس چین کے حیاتاتی ہتھیار کے پھٹنے کی وجہ سے پھیلا ہے لیکن یہ ان تمام کہانیوں میں سے ایک ہے جن کا واشنگٹن میں ذکر ہو رہا ہے۔ کاٹن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ یہ مرض چین میں پیدا ہوا ہے۔ لیکن ابتدائی دنوں سے ہی چین کا جو رویہ رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہمیں صرف ایک ہی سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ثبوت کیا کہتے ہیں، اور چین اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں دے رہا ہے۔ اس ضمن میں چاؤ لژیان نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے بارے میں ماضی میں بھی بغیر شواہد کے کئی باتیں کہی جاتی رہی ہیں مگر وہ کبھی ثابت نہیں ہو سکیں۔

کورونا وائرس کے بارے میں پھیلائی جانے والی سازشی تھیوری کے باوجود بھی ابھی تک یہ طے کرنا کسی بھی طور ممکن نہیں ہے کہ یہ ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے مگر امریکی قیادت کا اس کے بارے میں ردعمل انتہائی بچگانہ اور عقل و دانش سے محروم ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ کی طرح جلد بازی اور جذباتیت سے کام لیتے ہوئے کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دے دیا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ ٹویٹس بھی کی ہیں جن میں سے 2 مکالمہ کے قارئین کے لئے سکرین شارٹ کی شکل میں لگائی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ کے اس غیر ذمہ دارانہ رویہ پر چین نے سخت اعتراض کیا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکہ کو تنبیہ کی ہے کہ وہ چین کو گالی دینے سے پہلے ’اپنے کام پر دھیان دیں‘۔ چین کے اعتراض کے باوجود امریکی صدر ابھی بھی اسے ’چینی وائرس‘ کہہ رہے ہیں اور 3 دن پہلے کی جانے والی ایک ٹویٹ میں انہوں نے پھر سے ’چینی وائرس‘ اصطلاح استعمال کی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے ٹرمپ کے ٹویٹ کے بارے میں کہا کہ یہ چین پر الزام لگانے کے برابر ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ہم امریکہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی غلطی سدھارے اور چین کے خلاف اپنے بے بنیاد الزامات کو روکے‘۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی زبان ’نسل پرستانہ‘ اور نفرت پھیلانے والی ہے اور اس سے کسی حکمران سیاستدان کی غیر ذمہ داری اور نا اہلی نظر آتی ہے اور یہ رویہ وائرس کے بارے میں خوف کو فروغ دینے والا ہے۔ چین کے علاوہ اقوام متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے نے بھی ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کا نام لئے بغیر متنبہ کیا ہے کہ اس وائرس کو کسی خاص برادری یا علاقے سے جوڑ کر دکھانا بالکل غلط طرز عمل ہے۔ ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے چین مخالف اس طرز عمل کی ٹرمپ کی امریکہ میں بھی مذمت ہو رہی ہے۔ نیو یارک کے میئر بل ڈی بلاسیو نے ٹویٹ کر کے کہا کہ اس بیان کے ذریعے ایشیائی امریکی افراد کے خلاف ’تعصب‘ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

امریکی انتظامیہ کی طرف سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو چین کی طرف سے ناکام حیاتیاتی حملہ کے طور پر پیش کرنے والے اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے تسلسل نے چین کو سخت برانگیختہ کر دیا ہے۔ چین نے جواب میں امریکہ پرکورونا وائرس کے حیاتیاتی حملے کا الزام دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں امریکی خفیہ اداروں کا ہاتھ ہوسکتا ہے اور امریکہ کو اس کی وضاحت دینی پڑے گی۔ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امکان ہے امریکی خفیہ ادارے ہی چین کے علاقے ووہان میں کورونا وائرس لائی۔ ترجمان نے کہا کہ شفافیت کا فقدان چین میں نہیں بلکہ امریکا میں ہے۔ چین نے براہ راست امریکا پر بائیولاجیکل حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے سوال اٹھائے ہیں کہ ’’امریکہ میں کورونا کب شروع ہوا؟۔ کتنے لوگ متاثر ہیں؟امریکہ کے کن ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے انتظامات کئے گئے ؟۔ اس بات کا امکان ہے کہ امریکی خفیہ ادارے ووہان میں کورونا وائرس لے کر آئے۔ ان تمام سوالات پر امریکہ کو وضاحت دینا ہو گی۔ جریدے ”دی ڈپلومیٹ“اور ”چائنہ مارننگ پوسٹ “ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین نے کورونا وائرس پھیلانے کے الزام پر امریکا کے خلاف اقوام متحدہ میں جانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ چینی سائنسدانوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے امریکی لیبارٹریز میں اس وائرس کو تخلیق کیا گیا اور اسے ایک بائیولاجیکل ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا اور اسے جان بوجھ کر امریکا چین ٹریڈ وار، جنوبی چائنہ بشمول تائیوان کے سمندری تنازعات اور 5G انٹرنیٹ کے آزمائیشی تجربات والے معاملات سے جوڑا جارہا ہے۔ دوسری طرف روسی سائنسدانوں نے بھی چین کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ یہ امریکہ  کا ایک خوفناک بائیولاجیکل حملہ تھا جس نے چین کو پوری دنیا میں تنہا کردیا ہے اور چین کو کئی ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔ پوری دنیا نے چینی مصنوعات درآمد کرنے پہ پابندیاں لگا دیں اور کورونا وائرس حملہ دراصل چین کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لئے امریکی منصوبہ تھا۔ روسی سائنسدانو ں کا خیال ہے کہ یہ ایک امریکی سازش تھی جس کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنا اور وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اربوں ڈالرز کی ویکسین بیچ کر پیسہ کمانا ہے۔

چین اور امریکہ کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزمات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اب سے تقریبا‘‘ 40 سال پہلے یعنی سنہ 1981ء میں ڈین کونٹز نامی مصنف نے ایک ناول ’The Eyes of Darkness‘ لکھا تھا جس میں اس نے کورونا وائرس سے ملتے جلتے جان لیوا وائرس کا ذکر کیا تھا۔ اس ناول میں کہا گیا ہے کہ یہ خوفناک ہتھیار ایک لیبارٹری میں بنایا گیا۔ اس ناول میں ڈومبی نامی ایک کریکٹر چینی سائینسدان لی چن کی کہانی بیان کرتا ہے۔ لی چن نامی یہ سائینسدان امریکی ائیر پورٹ پر ایسی کمپیوٹر ڈسک کے ساتھ پکڑا جاتا ہے جس میں اگلے 10 سالوں کے بعد منظر عام پر آنے والے ایک ایسے حیاتیاتی ہتھیار کا ذکر ہے جسے ووہان شہر کے مضافات میں قائم ایک لیبارٹری میں بنایا جاتا ہے۔ یہ ہتھیار اتنا طاقتور ہے کہ انسانی جسم میں پائے جانے والے عام مدافعاتی نظام سے 400 گنا زیادہ طاقتور ہے۔ اس خطرناک بائیولوجیکل ہتھیار کو تیارر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے ہتھیار بنائے جائیں جو صرف انسانوں کو تباہ کر دیں مگر جانوروں اور اشیاء پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتے ہوں۔ ان ہتھیاروں کے حملہ کی صورت میں ایک شہر یا ملک کی انسانی آبادی تو ختم ہوجائے لیکن باقی ساری چیزیں اپنی جگہ استفادہ کے لئے موجود ہوں۔

ناول کی کہانی سے متاثر امریکی سیاستدان بیانات دے رہے ہیں کہ دوسروں کے لئے حیاتیاتی ہتھیار بنانے کے عمل کے دوران ایک تجرباتی مرحلہ میں سرزد ہونے والی کسی خطاء کے نتیجہ میں یہ ہتھیار چین کے شہر ووہان کی انسانی آبادی میں سرایت کرگیا جسے آج ہم” کورونا” کی وبا کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ ایک لمبی بحث ہوسکتی ہے کہ کیا امریکی ناول نگار جس نے سنہ 1981ء کے اس ناول کے پہلے ایڈیشن میں اس جان لیوا ہتھیار کو بنانے والے کے طور پر روس کا ذکر کیا تھا اور اس کا نام گورکی-400 رکھا تھا مگر بعد میں سنہ 2008ءکے ایڈیشن میں روس کی بجائے اُس نے چین کے شہر ووہان کی طرف اس ہتھیار کو نسبت دےدی تو اس کا نام بھی ووہان 400 رکھ دیا۔ چین سے ہمدردی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک یہودی سازش تھی جو پہلے ہی اس تھیوری کو پھیلا رہی تھی تاکہ اصل میں کورونا وائرس بنانے والے امریکی اور اسرائیلی جب اسے استعمال کریں تو اس کا الزام چین کو دیا جا سکے۔ اگر یہ نظریہ صحیح ہے کہ خود چین اس خطرناک ہتھیار پر کام کررہا تھا یا چین کے مخالف امریکی یہ گھناؤنا کام کر رہے تھے تو پھریہ سمجھ لینا چاہیے کہ تیسری عالمی جنگ کے سارے امکانات آج کل حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں کیونکہ اس طرح کے حیاتیاتی ہتھیاروں پر کام کرنے والے ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ جیسے جنونی مراحل اور جذباتیت کی انتہاؤں تک پہنچ چکے ہیں۔

فی الحال یہاں تک یہ بات درست ہے کہ کورونا وائرس جسے کووِڈ 19 (CoVid 19) کا نام دیا گیا ہے، اس کا پھیلاؤ چینی شہر ووہان سے ہی ہوا تھا۔ مگر یہ کہنا کہ کووِڈ 19 (CoVid 19) وائرس لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا، بالکل غلط ثابت ہو رہا ہے کیونکہ اس افواہ کو پھیلانے کا مآخذ سوشل میڈیا کے وہ اکاؤنٹس ہیں جو اب وجود نہیں رکھتے یا خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اُن کی پھیلائی ہوئی اس سازشی تھیوری کو مغرب اور چین کے تمام سائینسدانوں نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ فی الحال تمام سائینسدان اس وائرس کا مآخذ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بارے میں ابھی تک کسی قسم کی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی۔ اس ضمن میں البتہ ایک تھیوری بہت مشہور ہو رہی ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ سے کسی جانور میں پہنچا اور شاید اُس جانور کے کھانے سے انسانوں تک منتقل ہوا۔ سنہ 2003ء میں پھیلنے والی وباء سارس کا پھیلاؤ بھی کچھ اسی طرح کے ملتے جلتے حالات میں ہوا تھا۔ ناول ’The Eyes of Darkness‘ میں کریکٹر ڈومبی کے کہنے کے مطابق یہ وائرس اتنا خطرناک ہے کہ جو بھی اس سے مس ہوتا ہے وہ فوراً اس سے متاثر ہو جاتا ہے اور صرف 12 گھنٹوں میں مارا جاتا ہے یا 24 گھنٹوں میں تو لازمی مر جاتا ہے۔ دوسری طرف کورونا وائرس میں ایسا نہیں ہے کہ جو بھی اس سے مس ہوا وہ فوراً متاثر نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ اپنے مس شدہ حصہ کو اچھی طرح دھو لے تو اس جراثیم سے پاک ہو جاتا ہے۔ کورونا وائرس سے مرنے کی شرح بھی بہت کم ریکارڈ کی جا رہی ہے جو کہ بمشکل 3% تک ہی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ البتہ کورونا کا خوف بالکل ویسے ہی پھیل چکا ہے جیسا کہ ناول ’The Eyes of Darkness‘ میں کریکٹر ڈومبی کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ مکالمہ کے قارئین کے لئے اس ناول کے فرنٹ بیک پیجز اور وائرس ووہان 400 کے بارے میں بیان کی گئی تصوراتی کہانی کے اقتباسات فوٹوز کی شکل میں لگا دئیے گئے ہیں تاکہ آپ ناول کے خوفناک ہتھیار ووہان 400 اور وبائی مرض کورونا وائرس کووِڈ 19 (CoVid 19) کے درمیان فرق واضح طور پر سمجھ سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چین اور امریکہ کی اس لڑائی اور الزامات کے دوران ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس کی تباہیوں سے دنیا ایک ڈراؤنی فلم کا منظر پیش کررہی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں کورونا وائرس پر قابو پانے میں ناکام رہے تو نہ ہی ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی پاکستان کی معیشت وائرس کا جھٹکا برداشت کرسکتی ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ مرض جب بگڑتا ہے تو مریض کو سوائے وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کے کوئی چارہ باقی نہیں رہتا اور وینٹی لیٹر نہ ملنے کا مطلب موت ہے۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق پورے ملک میں کل ملا کر جو وینٹی لیٹر ہیں وہ ڈھائی ہزار سے زیادہ نہیں ہیں۔ پنجاب میں سرکاری اور غیرسرکاری ملا کر کل 1700 وینٹی لیٹر ہیں۔ بلوچستان میں 49 ، کے پی میں 150 اور سندھ میں یہ تعداد 800 کے لگ بھگ ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں ہزاروں پرائیویٹ ہسپتال ہیں، وہاں بھی ان ہسپتالوں کے پاس وینٹی لیٹرز کی کُل تعداد 175 ہے۔ باقی تمام ہسپتال محض نزلے، کھانسی اور بخار کے علاج کے لئے ہیں۔ آپ میں سے بیشتر نے یقیناً یہ تعداد پہلی بار سنی ہوگی لہذٰا وزیر اعظم عمران خان کو چھوڑیں اور تھوڑا گبھرا لیں کیونکہ اس پھیلتی ہوئی وباء میں کثیر تعداد میں وینٹی لیٹر درکار ہوں گے۔ یہ ڈھائی تین ہزار وینٹی لیٹر تو اس ملک کی اشرافیہ کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہیں کجا یہ کہ عام آدمی کو مل جائیں۔ اس لئے  سکول، کالج یونیورسٹی   اور مارکیٹیں بھی بند کرنی ہوں گی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر عوام سنجیدگی اختیار نہیں کرتی تو حکومت کرفیو لگانے کا سوچ رہی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو دباؤ دے کر کاروبارِ زندگی بحال کر لیں گے، یا دم درود ، تعویز وغیرہ سے کورونا وائرس کا علاج کر لیں گے، وہ ذرا ہوش کریں۔ امریکہ کے پاس ایک لاکھ 75 ہزار وینٹی لیٹر ہیں اور وہ خوف سے لرز رہا ہے۔ ہم سے بہت آگے انڈیا بھی اتوار سے کرفیو نافذ کررہا ہے۔ آسٹریلیا نے اپنے ملک میں داخلہ آج سے بند کردیا ہے۔ جنوبی کوریا وغیرہ نے بھی لاک ڈاؤن کر کے خود کو بچایا ہے۔ امریکہ کا مقابلہ کرنے والے چین جیسے ٹیکنالوجی کے سپر پاور نے اس جنگ میں فتح محض لاک ڈاؤن پر عمل کرکے ہی حاصل کی ہے اور اس ہلاکت خیز کورونا وائرس پر قابو پانے والے کامیاب ملک کے طور پر دنیا میں ابھرکر سامنے آیا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ چینی حکومت سے درخواست کریں کہ چین کورونا وائرس پر قابو پانے میں پاکستان کی فوری مدد کرے۔ یاد رہے کہ امریکہ سمیت کچھ اور ممالک نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خاتمہ اور کورونا وائرس سے متاثرین کے علاج کے لئے ویکسین اور دوا دونوں تیار کر لی ہیں مگر جب تک وہ آرڈرز ملنے کے بعد سپلائی کے ذریعہ پاکستان تک پہنچ پائیں گی، اُس کے لئے بہت وقت درکار ہو گا۔ اور اس دوران یہ ہلاکت خیز کورونا وائرس ہمارے یہاں تباہی مچا چکا ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply