کیا سوشلزم ناکام ہو گیا؟

یہ سوال ہر سرمایہ دار، محقق، دانشور اور معیشت دان ہم سے کرتا ہے کہ “کیا سوویت یونین کا انہدام, سوشلزم کی شکست ہے”؟ اس سوال کے بعد وہ خود ہی اس کا جواب دے دیتا ہے کہ واقعی ہی سوشلزم کی موت ہوچکی ہے۔ سوشلزم خیالی یوٹوپیا تھا، جو ستر, اسی سال چل کر ختم ہوگیا اور قصہ پارینہ بن گیا۔

میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ کیا کبھی سرمایہ داری کو شکست ہوئی ہے؟ تو حیرت یا غصے سے جواب آتا ہے کہ کیسی بے سروپا باتیں کرتے ہو۔ سرمایہ داری کو کبھی بھی شکست نہیں ہوئی. میں نے جواب دیتا ہوں کہ سوویت یونین میں اور دوسرے تمام سوشلسٹ ممالک میں سوشلزم کے نفاذ سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام ہی تھا، اس کو شکست دے کر سوشلزم یا اشتراکیت کا نظام نافذ ہوا. وقتی پسپائی ہمیشہ رہنے والی نہیں ہوتی۔ یہ درست ہے کہ ہم لوگوں سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں، ہم میں غداروں، موقع پرستوں اور ترمیم پسندوں کی کمی نہیں تھی.مگر سوشلزم ہم سے زیادہ ان لوگوں کی امنگ ہے، جو لاشوں کو بوڑھے کاندھوں پہ اٹھا کے سرخ پرچم کے سائے میں چلتے ہیں.جن کا پرچم امن کا نشان سفیدی تھا، مگر ان کا سفید پرچم ان ہی کے لہو سے رنگ دیا. جن کی اولادیں اور وہ خود گڈانی میں جل جاتے ہیں، بے یارو مددگار لاشے، مکمل مسخ شدہ۔ بوڑھے شخص کا ایک ہی بیٹا ہو اور وہ بھی سرمایہ داری کے اس الاو میں جل جائے، ایک ہی کفیل پورے گھرانے کا، اس بوڑھے شخص کے غم کو کائنات میں اس خود سے زیادہ کوئی محسوس نہیں کرسکتا. ایک طرف جوان بیٹے کی جلی ہوئی لاش پڑی ہے اور دوسری جانب سرخ پرچم کے نیچے کھڑا وہی بوڑھا شخص حقوق اور انصاف کے لیے احتجاج کررہا ہے. وہ بوڑھا اپنے جوان بیٹے کے لہو کا سراغ تلاش کررہا ہے، مگر تمام سرمایہ داروں نے ہاتھوں پہ دستانے پہنے ہوئے ہیں. اس کے باوجود بھی اسے یہ معلوم ہے کہ منافع کے ان پجاریوں نے اس سے اس کا ایک ہی بیٹا جو پورے خاندان کی کفالت کرتا تھا وہ بھی چھین لیا.

جب بھی مزدوروں کا کوئی جلسہ ہو، یا کسانوں کی بیٹھک ہو، یا پسماندہ اور مظلوم قوموں کی جدوجہد، وہاں آپکو سرخ پرچم اور درانتی ہتھوڑے کے نشان کا پرچم سربلند نظر آئے گا۔ کیا کبھی آپ کو نازی ازم، جاگیرداری یا سرمایہ داری کا جھنڈا ان مفلوک الحال لوگوں کے ہاتھوں میں نظر آیا؟.. جب آبادی کا نوے فیصد ایک نظریے پہ جان چھڑکتا ہو، تو کیا وہ نظریہ مر سکتا ہے؟

سوویت یونین کا انہدام ایک افسوسناک واقعہ تھا، مگر سوویت یونین ہمارا قبلہ و کعبہ نہیں تھا۔ ہمارے مرکز و محور مزدور کسان اور مفلوک الحال مظلوم قومیں تھیں، اور ہیں. یہ درست ہے کہ سوویت یونین مظلوم اور نوآبادیاتی اقوام کے لیے بڑے بھائی طرح تھا جو ان کی مالی، اخلاقی اور ہر طرح کی امداد کرتا تھا اور سامراج سے بچاو میں ان چھوٹے چھوٹے ممالک کے لیے سایہ دیوار کی مانند تھا. انہدام کے سانحے کے بعد جن کا “قبلہ و کعبہ” ماسکو تھا، وہ فوراً منحرفین میں شامل ہوگئے۔ کچھ حاجی صاحبان بن گئے تو کچھ سرمایہ داری کی “جنت” کی سیر پہ چلے گئے اور کچھ تو کمیونزم کے مخالفین میں شامل ہوگئے۔ کئی سابقہ سوشلسٹ اب آپکو معروف لبرل نظر آئیں گے۔ وہ سوشلسٹ نظامِ زندگی میں نقص نکالتے ہیں کہ “وہاں کی زندگی بور تھی ورنہ سہولیات تو تمام کی تمام میسر تھیں”۔ یہ منحرفین صرف دولت و جاہ کے شیدائی تھے، یہ وہ دانشور تھے جو صرف ظاہری شکست کو سب کچھ مان گئے. ان کا جدلیات سے یقین اٹھ چکا تھا اور ان کی جدلیات بھی کیا تھی، رٹا رٹایہ ایک سبق جو امتحان کے بعد بھول گئے. یہ عقیدہ پرست تھے، جبکہ مارکسزم لینن ازم تو ایک سانئس ہے. مزدوروں اور کسانوں نے ان مایوس اور پراگندہ ذہن لوگوں کو مسترد کردیا کیوں کہ ان کی ہرزہ سرائی صرف مفاد پرستی پہ کھڑی ہے۔ یہ مڈل کلاس ذہن کے لوگ تھے جو بے چارے دور اندیشی سے دور دور تک تعلق نہیں رکھتے تھے. مزدوروں کسانوں کو علم تھا اور ہے بھی کہ یہ وہی سرمایہ داری ہے جس نے ان کی زندگیوں کو جہنم سے بھی زیادہ کٹھن بنادیا، اس کے حاصلات صرف خودکشیاں, بے روزگاری, فاقے اور جبر و غلامی ہیں. اور سابقہ سوشلسٹوں کا یہ نیا لبرلزم بھی فقط ذاتی مفاد کا ایک نیا حربہ ہے۔

سیموئیل ہیملنگٹن نے ایک بے سروپا اور فضولیات پہ مبنی تھیوری دی کہ اب کمیونزم کی شکست ہوگئی ہے، دنیا اس کے شر سے محفوظ ہوگئی ہے اور اب سرمایہ داری کی جنت دنیا میں قائم ہوگی. مگر سامراج کی عراق پہ بمباری کیا تھی؟ افغانستان پہ جارحیت، شام کی تباہی اور پھر داعش کی شکل میں ایک عالمی دہشت گرد تنظیم کا قیام، جنت کی وقع پزیری کے لیے تھا؟ 2008 کا شدید مالیاتی بحران اور وال سٹریٹ میں عظیم مظاہرے؛ کیا ان مظاہرین کے نعرے سوشلزم کے بنیادی نعروں سے مزین نہ تھے؟ امریکہ جہاں سوشلزم کا نام تک لینا جرم تھا، وہاں برنی سینڈرز نام کا شخص سوشلزم کا نام لے کر انتخابات میں شامل ہوا۔ چاہے اس کا سوشلزم، سوشل ڈیموکریسی کا ہی ملغوبہ کیوں نہ ہو، مگر اس شخص نے کھلے عام خود کو سوشلسٹ کہا. جیریمی کاربن کا لیبر پارٹی کا سربراہ منتخب ہونا، جب کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ ریڈیکل لیفٹسٹ ہے، کیا اب بھی سوشلزم کی موت ہوگئی ہے؟
سامراج 60 سال کی شدید محنت اور ریاضت کے باوجود بھی عوامی جمہوریہ کوریا اور کیوبا کو نہیں جھکا سکا، کیا آپ اب بھی سوچتے ہیں کہ سوشلزم کی موت ہوگئی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشلزم کوئی عقیدہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک سانئس ہے۔ عقائد پہ زمانے کا اثر پڑتا ہے مگر سانئس نئے زمانے کے لیے قوانین کو ترتیب دے لیتی ہے اور معروض کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔سوشلزم کی صدا اس وقت تک پوری دنیا میں گونجتی رہے گی جب تک کہ استحصال اور استحصالی طبقات کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اور بے طبقاتی نظام جس میں سب کو ان کی ضروریات مکمل طور مہیا ہوں گی، قائم نہیں ہوجاتا…

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply