مثبت اور منفی شخصیت /سلیم زمان خان

اسٹیفن کووی ایک مبلغ، پروفیسر، دینی تعلیم کے ڈاکٹر، ہارورڈ MBA، کاروباری اور قائدانہ کوچ تھے۔قائدانہ صلاحیت اور پر اثر شخصیت کے حصول کے اصولوں پر مبنی ڈاکٹر اسٹیفن کووی کی مشہورزمانہ کتاب “انتہائی پر اثر شخصیات کی 7 عادات” “Seven Habits of Highly effective people”ہے۔۔مصنف اس کتاب میں اخلاقیات کو حقیقی طاقت سمجھتا ہے اور اس کے اثرات کو آفاقی اور لازوال خیال کرتا ہے۔ شخصیت کو اخلاقیات کا مجموعہ کہتا ہے، اس کا ماننا ہے کہ شخصیت کو عالمگیر اور لازوال بنانے میں سب سے اہم اور مؤثر طاقت اخلاق اور کردار ہے۔ مصنف اصولوں اور قوانین کو ظاہری طاقت سمجھتا ہے، جبکہ اخلاق و اقدار کو اندرونی طاقت کہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “در اصل ہماری  اقدار، ہمارے رویوں پر حکمرانی کرتے ہیں”۔ اور یہ اقدار اور اصول اخلاقیات کائناتی سچائی ہیں۔ جو انسان کے روز آفرینش سے آج تک جوں کے توں ہیں  اور ان اصولوں کو وہ کردار کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کردار اور افعال میں دو طبقات کا شکار ہیں ۔

1۔فعال یا مثبت شخصیت کے حامل افراد Pro active people
مثبت انداز فکر رکھنے والے یہ لوگ رکاوٹوں اور مشکلات کو خاطر میں ہی نہیں لاتے وہ ہر مسئلے کو چیلنج سمجھتے ہیں اور اپنے تخلیقی آئیڈیاز سے ہر رکاوٹ مشکل اور مسئلے کو بطریق احسن حل کر کے ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی راہ میں حائل ہر مزاحمت کو مہم سمجھ کر اسے سَر کر لیتے ہیں۔تعمیری اورمثبت سوچ کے حامل یہ لوگ زبردست قوت فیصلہ کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ عزم واستقلال سے مجوزہ پروگرام کے مطابق یکے بعد دیگرے اپنے مقاصد حل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ابہام اور تذبذب کا عالم ایسے لوگوں کو لاحق نہیں ہوتا۔ اور اپنے نصب العین کو حاصل کر کے مطمئن اور مسرور ہو جاتے ہیں۔مثبت رویے اور تعمیری انداز فکر کے لوگ اپنے وجود میں جوش و خروش کی توانائی کی تازہ خوراک مسلسل حاصل کرتے رہتے ہیں اور ہر آن سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اگر آپ انہیں اپنے اردگرد دیکھیں تو آپ کو سرسبز گھنے درختوں کا گمان ہو جن سے ہوا گزر کر ماحول کو خوشگوار کر دے۔

2۔غیر فعال یا منفی شخصیت کے حامل افراد Re active people
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے حالات کا ذمہ دار ہمیشہ دوسروں کو یا ماحول کو قرار دیتے ہیں۔۔ ان کے مزاج پر دوسرے ہمیشہ سوار رہتے ہیں۔ یہ حالات کو اپنی ناکامی اور لوگوں کو اپنی شکست کی وجہ سمجھتے ہیں  ۔ جس حد تک ان کے حالات خراب ہوتے جائیں یہ اتنا ہی جذباتی اور غصہ میں آتے ہیں اور ان حالات کو سدھارنے کی بجائے خود کو اور معاشرے کو کوستے رہتے ہیں ۔ نتیجہ میں اسٹریس، ذہنی بیماریاں اور جسمانی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق ایسے لوگوں میں اپنی دیکھ بھال کرنے کا رجحان بہت کم ہوتا ہے اور یہ لوگ سگریٹ و شراب نوشی کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک اور طرز زندگی انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جو ان لوگوں میں دل کے عارضے سمیت دیگر امراض کا سبب بنتی ہیں اور ان کی جلد موت ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ان دونوں شخصیات کی بنیاد ڈاکٹر اسٹیفن کووی اس کردار کو سمجھتا ہے جسے وقت کے ساتھ کوئی بھی انسان اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔۔اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے وہ Ralph Waldo Emerson کی مشہور زمانہ کوٹیشن
Sow a thought and you reap an action;
sow an act and you reap a habit;
sow a habit and you reap a character;
sow a character and you reap a destiny.
کو بطور دلیل بیان کرتا ہے۔۔ جس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ
” آپ ایک سوچ کو اپنے ذہن میں بوئیں یہ سوچ ایک طرز عمل پیدا کرے گی،یہ طرز عمل آہستہ آہستہ ایک عادت میں تبدیل ہو جائے گا اور یہ عادت رفتہ رفتہ آپ کے کردار کے طور پر جانی پہچانی جائے گی اور یہ کردار آپ کی قسمت کا فیصلہ کرے گا”

اس تمام بحث سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ۔۔ ایک وہ جو اپنی شخصیت میں مثبت کردار کو اپناتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے کردار میں منفی عادات کو پروان چڑھاتے ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہمارے لئے یہ تحقیق کوئی نئی نہیں۔۔ اللہ کریم نے جب انسان کو تخلیق کیا تو اس سے پہلے یہ دو رویے تخلیق فرمائے۔

1- مثبت رویہ: جسے ہم آدم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ ان سے جب غلطی ہو گئی تو انہیوں نے آگے بڑھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور رب سے عرض کی کہ انہیں ازسر نو سدھار کا موقع فراہم کیا جائے۔ اور اپنے رب سے معافی کے کلمات سیکھے اور اسے اپنی زندگی پر اپلائی کیا۔ لہذا انہیں زمین کی خلافت عطا کر دی گئی۔
Saleem
Saleem Zaman Khan
Saleem unsent a message
Saleem
Saleem Zaman Khan
2۔ منفی رویہ: جسے ہم ابلیس کے نام سے جانتے ہیں۔

پہلا کام اس نے یہ کیا کہ متکبر ہوا۔اور جوش تکبر سے خالق کی قدرت کاملہ پر نکتہ چینی کی۔۔ اور کہا کہ میں اس سے بہتر ہو میں اسے سجدہ کیوں کروں۔ یہی رویہ آپ مختلف لوگوں میں دیکھیں گے۔ انہیں یہ کہتے سنیں گے کہ پتہ نہیں اللہ نے فلاں کو کیوں نوازا حالانکہ میں اس سے زیادہ بہتر تھا۔ یعنی اللہ کے علم کو چیلنج کریں گے۔ پھر جب ابلیس سجدے سے انکاری ہوا تو ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ سے بدگمان ہوا کہ ” تو نے مجھے گمراہ کیا ” یعنی تو نے میری قسمت میں نہ لکھا ہوتا تو میں ایسا نہ کرتا۔ یہی عادت منفی شخصیت کے حامل افراد کی ہے کہ وہ جزا اور سزا کو جھٹلا کر مختلف شخصیات،خاندان ، دوست حالات کو اپنی ناکامی کا   ذمہ     دار ٹھہراتے ہیں۔ جادو ٹونہ، نفرت نظر بد کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔۔ جبکہ اصل وجہ ان کی ہٹ دھرمی کاہلی، بغض اور عناد ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر جس طرح ابلیس نے بغض وعناد اور تکبر اور حسد میں آ کر اللہ کریم سے عرض کی کہ مجھے اس انسان کو ورغلانے اور تباہ کرنے کی اجازت دے ،یہ انتقامی جذبہ منفی افراد کی خاص عادات میں سے ہے۔۔ ان کی دعا یوں ہوتی ہے کہ اللہ مجھے موقع دے تاکہ میں اپنے مد مقابل کو ذلیل کر سکوں۔۔ یا کسی کامیاب شخص کو دیکھ کر اس کی طرح کامیاب ہونے کی دعا نہیں کریں گے بلکہ اس کی تباہی کو دیکھنے کی استدعا دعاؤں میں کرتے رہیں گے۔۔ اس کے خلاف دفتر ،خاندان محلے کاروبار میں گھٹیا چالیں چلیں گے۔ انہیں جب مشورہ دیں گے وہ ظاہری طور پر مثبت مگر درپردہ اس کی تباہی کا باعث ہو گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ خبردار جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب تک وہ صحیح رہتا ہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے ، اور جب وہ خراب ہوجا تاہے تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے . یاد رکھو وہ دل ہے.(بخاری)

مذہب کی رو سے دل وہ جگہ ہے جہاں سے انسان ارادہ یا نیت کرتا ہے جسے ذہن عقلیت اور مذہبیت کی بنیاد پر قبول یا رد کرتی ہے۔۔ اسی لئے نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ “اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے” ایک سوچ آپ عادت اور عادت آپ کا کردار تخلیق کرتی ہے اور یہ کردار آپ کے خاتمہ بالخیر یا جہنم کا فیصلہ کرتا ہے۔۔
آدمیت اور ابلیسیت دراصل اچھائی اور برائی کے کرنے سے پہلے سوچ کا نام ہے۔۔ یاد رکھیں خدا کی ذات سے ایک ابلیس اور ایک منفی سوچ کا حامل بندہ ہی مایوس ہیں ۔۔یعنی منفی کردار کا بندہ دراصل ملعون ہے۔
بس ہمیں اپنے دل سے یہ پوچھنا ہے کہ آیا ہماری سوچ منفیت کا شکار ہے یا مثبت ۔ اگر کسی کو دکھ دینے تکلیف یا نقصان پہنچانے کا ارادہ بن رہا ہو یا آپ اپنے کرتوت کا  ذمہ دار لوگوں اور حالات کو ٹھہرا رہے ہوں تو ایک مرتبہ شیشے کے آگے جا کر یہ ضرور کہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ میرا شیشہ ہے،یہ میں ہوں اور یہ ہماری ابلیسیت ہو رہی ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply