• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اجتماعی ظلم کی ایسی داستان کہ کا ہر دِل خون کے آنسو روئے۔۔۔۔ظفر راٹھور

اجتماعی ظلم کی ایسی داستان کہ کا ہر دِل خون کے آنسو روئے۔۔۔۔ظفر راٹھور

یہ واقعہ ہے آزاد کشمیرکے  سب سے پسماندہ اور دور دراز ضلع حویلی کہوٹہ کے ایک گاؤں ہالن شمالی کا۔ 2013 میں ایک قیمتی جڑی بوٹی کی تلاش میں دو بھائی کسی پہاڑی علاقہ میں جاتے ہیں، جو کہ نسبتاً  ویران علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ جڑی بوٹی قیمتی ہونے کی وجہ سے لوگوں میں برادری کی بنیاد پہ رنجش پیدا ہو جاتی ہے ۔ مخالف گروپ ان دو بھائیوں سے نمٹنے کے لئے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ جو کہ اپنی اپنی سمت میں بوٹی کی تلاش میں نکل چکے ہوتے ہیں۔ موقع ملتے ہی تاک میں بیٹھا گروپ حملہ آور ہوتا ہے۔ ایک بھائی کو کلہاڑا مار کے قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ نیچے گرتا ہے تو اسے اٹھا کے گھر کے اندر لے جایا جاتا ہے۔ جہاں پہ سب سے پہلے اس کی ٹانگیں کاٹی جاتی ہیں۔ پھر جسم کا ہر حصہ الگ الگ کاٹا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد جب دوسرا بھائی آتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا بھائی زخمی ہوگیا تھا اسے اندر رکھا ہے۔ ورغلا کے اسے بھی گھر میں لے جا کے درندگی کی تاریخ رقم کی جاتی ہے۔ دونوں بھائیوں کے جسم کے سب اعضاء الگ الگ کر دئیے جاتے ہیں۔ اور غائب کر دیا جاتا ہے۔

دریں اثناء  جب برادری کے دیگر لوگوں کو معلوم ہوتا ہے تو قاتلوں کی پشت پناہی کے لئے رات کے اندھیرے میں میٹنگز ہوتی ہیں۔ قاتلوں کو بچانے کے لئے کروڑوں کا چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مقتولوں کے گھر والے سمجھتے ہیں کہ بچے شاید راولپنڈی چلے گئے جہاں پہ بوٹی کی فروخت ہوتی ہے۔ تین چار دن تک جب کوئی رابطہ نہیں ہوتا تو فکر لاحق ہوتی ہے کہ اس سے قبل تو ایک دن میں کئی بار رابطہ ہوتا تھا، اس بار کہاں چلے گئے۔ ساتویں دن کوئی گاؤں کا بندہ پہاڑوں پہ جاتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ ایک گھر سے شدید بو آ رہی ہے۔ قریب جانے پہ معلوم ہوا کہ انسانی لاش ہے۔ گاؤں میں فون کیا، ایک کہرام بپا ہوا۔ دوسرے بھائی کی تلاش شروع ہوئی تو کچھ پتہ نہ لگا۔ پولیس نے تفتیش شروع کی تو مقامی سیاسی نمائندہ محمد عزیز   بھر پور انداز میں اثر انداز ہوا۔ محمد عزیز ن لیگ کی موجودہ حکومت میں آزاد کشمیر میں وزیرِ تعمیراتِ عامہ ہے۔ ذرائع کے مطابق  یہی شخص قاتلوں کا سرپرست ہے اور برادری کی بنیاد بنا کے قاتلوں کو سہولت مہیا کرتا ہے۔ کیس پہ جب اس نے بہت زیادہ اثر ڈالنا شروع کیا کیس کو دوسرے ضلع میں منتقل کرنے کی اپیل کی گئی، جو کہ منظور ہوئی۔
تفتیش دوسرے ضلع میں منتقل ہونے پہ قاتلوں نے دوسری لاش، طریقہ واردات، اور آلہ قتل سب کے بارے میں بتا دیا۔ سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ نے قاتلوں کو پھانسی کی سزا سنائی۔ قاتل سپریم کورٹ پہنچ گئے، جہاں پہ ایک متعصب جج ابراہیم ضیا کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ ابراہیم ضیا سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہے۔ اور محمد عزیز سے گہرا ذاتی تعلق رکھتا ہے۔ جج برادری ازم کی بنیاد پہ اتنے درد ناک قتل کو بیک جنبشِ قلم ختم کر دیتا ہے۔ علاقہ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ قتل کس نے کیا۔ قاتلوں کے ساتھ ساتھ قاتلوں کے ورثا تک مان چکے تھے کہ یہ کام ہمارا ہے۔ لیکن اندھے قانون کا اندھا وارث ہر صورت اپنے کرتوت سیاہ دکھانا چاہتا تھا۔ دکھانا چاہتا تھا کہ انصاف صرف اندھا نہیں ہوتا بلکہ درندہ ہوتا ہے۔
قاتل جب رہا ہو کے اپنے علاقہ میں پہنچے تو ڈھول باجے، نعروں اور آتش بازی کے ساتھ ہیرو کے طور پہ ان کا استقبال ہوا۔ دراصل یہ قاتلوں کا استقبال نہیں تھا بلکہ انصاف کا جنازہ ذرا دھوم سے اٹھ رہا تھا۔ اس جنازہ کے اٹھنے پہ مظلوم خاندان ریاست سے کچھ سوال پوچھتا ہے۔
کیا انصاف صرف بازارِ طاقت کی طوائف ہے؟
کیا غریب کا قتل جائز ٹھہر گیا ہے؟
کیا یہ نظام ہے جس کے حصول کے لئے کشمیری آج تک قربانیاں دیتے آئے تھے؟
اگر اسی نظام نے زندہ رہنا ہے تو پھر مظلوم و محکوم کو ریاست خؤد کشی کی تو اجازت دے دے۔ تاکہ مرنا تو اپنے احتیار میں رہ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس اس امر کا ہے کہ انگلیاں انصاف کی سب سے بڑی کرسی پہ آٹھ رہی ہیں اور انگلی وہ اٹھا رہے ہیں، جن کی انگلیاں پہلے سے ہی فگار ہیں۔ تعصب اور برادری ازم پاکستان کے کونے کونے میں موجود ہے لیکن تعصب کی ایسی مثال کہ ریاست کا وہ ادارہ جو انصافی کی فراہمی کے لئے بنایا گیا وہی قانون کا بلتکار کرنے والوں کے کاندھوں پہ نظر آتا ہے۔
یاد رکھیں ایک عدالت اس سے اوپر بھی ہے، اور اس کا انصاف بہت بھیانک ہوتا ہے، وہ پھر نیکوکاروں اور بدکاروں کی فہرستیں نہیں بناتا، وہ سب کچھ بہا کے لے جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ وہ قہر زمین پہ اترے، زلزلے اور آفتیں ہر طرف سے دھاوا بول دیں، اٹھیں اور ایک مظلوم کی آواز بنیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply