فوج ہی کیوں؟۔۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

کسی گاؤں میں کنواں تھا جہاں سے لوگ پانی لیتے اور گھریلوں ضروریات پوری کرتے تھے۔ ایک رات اندھیرے میں ایک بیمار کتا کنویں میں گر کے مر گیا۔ اگلے دن پورا گاؤں وہاں اکٹھا ہو گیا کہ اوہ ہو ہو یہ تو کنواں ناپاک ہو گیا ،اب وضو کہاں سے کریں گے۔

مسجد کے چھوٹے مولوی صاحب کے پاس مسئلہ لے جایا گیا انہوں نے کہا کنویں میں سے چالیس بالٹیاں پانی کی نکال دیں پاک ہو جائے گا۔ جوان شروع ہو گئے، چالیس بالٹیاں نکال دیں، پھر پوچھا مولوی صاحب سے کہ   اب پاک ہو گیا؟

مولوی صاحب نے کہا پھر چالیس بالٹیاں نکالو۔ پھر نکالی گئیں، پھر پوچھنے پر چھوٹے مولوی صاحب نے فرمایا نہیں  بھئی پاک نہیں  ہوا، پھر چالیس بالٹیاں نکالو ،یوں نکالتے نکالتے آدھا کنواں خالی ہو گیا مگر مولوی صاحب نے کہا نہیں بھئی پاک نہیں ہوا۔۔! خیر بڑے امام صاحب کو بلایا گیا مسئلہ بتایا گیا تو انہوں نے کنویں میں جھانک کر دیکھا اور کہا “او کملیو پانی کڈی جاندے او پیلے کتا تے کڈ لو( او پاگلوں پانی نکالے جا رہے ہو پہلے کتا تو نکال لو)”۔

ائیر مارشل ارشد ملک نے پی آئی اے کا چارج چھوڑ دیا۔۔۔جس پر ہمارےمحب وطن طبقے میں سے کچھ احباب میں غم و غصہ پایا جا رہا  ہے کہ پی آئی اے جو خسارے میں جا رہی تھی ارشد ملک صاحب نے آ کر اس کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، اب عدلیہ بیچ میں کود پڑی۔ بلاشبہ یہ بات درست ہے ۔ پی آئی اے کو خسارے سے نکالنے والے سر ارشد ملک ہی تھے اور اداراتی مفاد بھی اسی میں تھا کہ ادارے کی بھاگ دوڑ سر ارشد ملک یا کسی بھی فضائیہ کے آفیسر کے ہاتھ میں دے دی جائے تاکہ وہ مزید بہتری کی منازل طے کرے۔

لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں! کب تک دوسرے اداروں کی خرابیاں فوج دور کرتی رہے گی، کب تک فوج پر بوجھ ڈالا جاتا رہے گا دوسرے اداروں کی انتظامی خرابیوں کا( پھر ایک تو فوج ان کی ذمہ داری اٹھا کر انہیں ٹھیک کرے اوپر سے ملک ہی میں سے ایک بڑے طبقے کی طرف سے طنز و تشنیع کا نشانہ بھی بنے کہ فوج قابض ہے وغیرہ وغیرہ)

تو اداروں کی بہتری کا یا خساروں سے نکالنے کا مستقل حل ہرگز یہ نہیں کہ فوج کے حوالے کرتے جائیں، جو ادارہ خسارے میں جائے ڈوب رہا ہو اسے فوج کو دے دیا جائے کہ ٹھیک کرے۔ ہر ہر ادارے کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوگا،انتظامی خامیوں کو دور کرنا ہوگا، کرپشن اور اقربا پروری کا خاتمہ کرنا ہوگا، ادارے سے متعلقہ لوگ جنہیں اسی ادارے کے لیے تربیت دی گئی ہے، انہی کو اس قابل بنانا ہوگا کہ وہ اداروں کو درست طریقے سے چلائیں، مستحکم کریں، منظم طریقہ کار سے چلائیں جہاں جہاں جو بھی کمی کوتاہی موجود  ہے ،ان کا حل حکومتی اور ادارتی سطح پر ہونا چاہیے۔

یعنی اداروں میں مسئلہ ہے یا اداروں کو چلانے والے لوگ قابل نہیں ،تو اس کا حل یہی ہے کہ وہ مسئلہ ختم کیا جائے اور لوگ قابل بنائے جائیں( جو مسئلے کا اصل حل) نا  کہ خراب کر کر کے فوج کو کہیں کہ آئیں اب ہمیں خسارے سے نکال دیں ،یہ تو وقتی  حل ہے، ہر ہر ادارے کی حالت ابتر ہے تو فوج کس کس ادارے کو ٹھیک کرے گی؟

لہٰذا اگر پاکستان اور اس کے اداروں کا استحکام صحیح معنوں میں مقصود ہے تو پانی نکالنے پر زور کی بجائے کتا نکالنے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply