اوکری کو پڑھیے۔۔اورنگزیب وٹو

ادب سے تعلق ہونے کے بڑے نقصانات ہیں۔سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔انسان کا دماغ اور دل جسم کا ساتھ چھوڑ دیتےہیں اور ہر وقت کسی اور دنیا،کسی اور زمانے۔،کسی مختلف کیفیت، کسی اور کردار اور واقعات کی الجھن میں الجھے رہتے ہیں۔اس بیماری اور مخبوط الحواسی کا شکار چونکہ بہت سالوں سے ہوں اس لیے اس راستے پر چلتے ہوۓ بہت سارے کرداروں سے محبت و عقیدت کا تعلق بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ان کرداروں میں خورشید عالم جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہم جیسے مخبوط الحواس لوگوں کو راہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔بین اوکری میرے پسندیدہ ادیبوں میں سے ہے اور اس کی کہانیوں کو اپنی تمام تر مخبوط الحواسی کے باوجود پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔افریقی ادب جو کہ بے مثال ادیبوں اور کہانیوں کی بدولت مجھے بے حد پسندہے تو مختصراً اس کا بیان کرتا چلوں۔ افریقی ادب اگرچہ انگریزی زبان میں ہم جیسے طلباکے سامنے آیا ہے نہ کہ افریقہ کی مقامی زبانوں میں لیکن افریقی لکھاریوں کی یہ خصوصیت انہیں دنیا بھر میں ممتاز بناتی ہے کہ انہوں نے افریقی کہانیوں کو انگریزی زبان میں بیان کرتے ہوۓ نا صرف اپنی کہانیوں سے انصاف کیا بلکہ ایسے شاہکار تخلیق کیے کہ پچھلے پچاس سالوں کے قلیل عرصے میں دنیاۓ ادب میں ناصرف اپنا مقام بنایا بلکہ ادب کی دنیا میں نئی سمتیں اور جہتیں متعارف کروائیں۔افریقی شاعروں، ڈرامہ نگاروں، کہانی نویسوں نے تخلیق کی دنیا میں شاندار افسانےتراشے اور ساتھ ہی ساتھ افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے عبقری دانشوروں اور مفکرین نے فکر و نظر کی دنیا میں انتہائی پُر اثر کام کیا۔افریقی ادب کی جڑیں اگرچہ قدیم مذاہب اور روایت میں پیوست ہیں لیکن نوآبادیاتی نظام کے تلخ تجربات نے جہاں افریقی تاریخ اور سیاسی نظام کو بدل کر رکھ دیا،بالکل اسی طرح ادب میں بھی مغربی اصناف اور روایت داخل ہو گئیں۔نو آبادیاتی چنگل سے آزاد ہونے کے بعد مقامی جبر کا شکار ہونے والا افریقی معاشرہ،جو اعتقادی حوالوں سے ابراہیمی مذاہب اور قدیم مقامی فرقوں میں بٹا ہوا ہے،اس معاشرے میں جنم لینے والی کہانیاں بڑی پیچیدہ اور الجھی ہوئی ہیں۔لکھاری کو کہانی بیان کرتے ہوۓ افریقہ کے تاریخی اور تہذیبی شعور کا اظہار اس طرح کرنا پڑتا ہے کہ ماضی اور حال کی تمام کیفیات کی یکجائی سے پیدا ہونے والی صورتحال کو کما حقہ بیان کر سکے۔جدید افریقی لکھاریوں میں چینو اچیبے،شوئنکا،والکوٹ،ٹونی موریسن،ایلس واکر،نارڈین گورڈیمر،گوگی وا تھیانگو جیسے نام شامل ہیں، جن کے خیالات اور کہانیوں نے پوری دنیاکے قارئین ادب کو بے حد متاثر کیا ہے۔بین اوکری بھی اسی قبیل کے لوگوں میں سے ہے جن کے”صحیح الفاظ صحیح جگہ پر جادو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں“۔بین اوکری سے سب سے پہلا تعارف نائجیریا میں ہونے والی خانہ جنگی کے پس منظر میں لکھی کہانی In the Shadows of War کی صورت میں ہوا۔جنگیں مصیبت زدہ انسانوں اور معاشروں پر مزید کیا کیا مصائب لاتی ہیں اور ایک بچے کی آنکھیں ان جنگوں کو کیسےدیکھتی ہیں،اس کہانی کا بیان ہمیں اس جنگ سے متاثرہ بچے کی دنیا میں لے جاتا ہے۔یہ کہانی صرف نائجیریا یا افریقہ کے ایک بچے کی نہیں بلکہ برما سے لے کر لاطینی امریکہ اور افغانستان سے لے کر لیبیا تک لاکھوں مظلوموں کی داستان ہے۔بین اوکری کا افسانوی مجموعہIncidents at Shrines بھی افریقی معاشرے کا بیان ہے جو نوآبادیاتی غلامی سے آزادی کے بعد بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ان کہانیوں میں ہمارے سامنے نائجیریا ہے جو خانہ جنگی،فوجی آمریت،بد عنوان سیاست اور ایک ظالمانہ نظام کا شکار ملک ہے۔نائجیریا کے حاکم طبقات نے وہی ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوۓ محکوموں کو جکڑ رکھا ہے جو اس سےپہلےغیر ملکی قابضین کا طریقہ رہا ہے۔بین اوکری نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے حقیقی اور طلسماتی کرداروں اور شعوری و لاشعوری دنیا میں پیش آنے والے واقعات کا سہارا لیا ہے۔انہی کہانیوں میں چند سالہ بچے کے نقطہ نظر سے جنگ اور امن کے مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے جو حقیقت نگاری کا بے حد موثر ذریعہ ہے۔

بین اوکری کا شاہکار ناول The Famished Road میرے سامنے ہے۔یہ ناول اوکری کی عالمی شہرت کی وجہ ہے اور اس بے مثال ناول کی وجہ سے ہی اوکری کو برطانیہ کے مشہور ادبی انعام Man Booker Prize سے نوازا گیا۔اس ناول کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے جن میں اردو بھی شامل ہے۔یہ ناول ایک ایسے بچے Azoruکی کہانی ہے جس کا مسکن روحوں کی دنیا ہے لیکن Azoru انسانوں کی دنیا میں آجاتا ہے۔ ۔یہ ناول Azoru کے ساتھ پیش آنے والے محیر العقول واقعات کی داستان ہے جس میں افریقی تاریخ،تہذیب،روایات،جدید و قدیم کی کشمکش کو بیان کیا گیا ہے۔The Famished Road میں اوکری کا ایک جملہ آپ کو کسی تخیلاتی مقام کی سیر کروا رہا ہوتا ہے اور اگلے ہی لمحے آپ حقیقت کی دنیا میں گلتے سڑتے افریقی معاشرے سےنبرد آزما ہو رہے ہوتے ہیں۔اس کہانی میں Magical Realism کی تکنیک کا استعمال اس خوبی سے کیا گیاہے کہ قاری ان واقعات پر ایمان لانے پر مجبور ہو جاتا ہے اور اپنے دل و دماغ کو کہانی کے کرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔بین اوکری کی کہانی کےمرکزی کردار Azoru کے ذریعے وہ تمام تاریخی،تہذیبی،سیاسی اور سماجی سوالات پوچھے گئے ہیں جن پر بات کرنا نائجیریا اور اس جیسے کئی معاشروں میں شاید آسان نہیں ہوتا۔
بین اوکری نے اپنی زندگی میں بہت سارے نشیب وفراز دیکھے اور ان تمام حادثات و تجربات کو اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔The Famished Road کے بارے میں بات کرتے ہوۓ اوکری کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کہانی اپنی زندگی کو معنی پہنانے کے لیے لکھی۔اوکری نے فلسفہ حیات پر بات کرتے ہوۓ ایک واقعہ بیان کیا کہ ان کے والد نےایک مرتبہ ان سے کہا کہ تم مغربی دنیا کے فلسفیوں کی باتیں کرتے ہو ،کبھی ہمارے فلسفہ پر بھی لکھو۔اوکری کہتے ہیں کہ میرے استفسار پر والد نے اپنے چاروں طرف پھیلے تا حد نگاہ منظر کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا”یہ ہےہمارا فلسفہ“۔اوکری کی کہانیوں میں بھی ہمیں تا حد نگاہ پھیلا افریقہ اور اس سے برآمد ہونے والا فلسفہ حیات سامنے آتا ہے۔یہ فلسفہ حیات سمجھنے کےلیےشاید ایک جنم کافی نہیں اور اوکری کے الفاظ میں ہی”یہ دنیااس قدر پہیلیوں بھری ہے کہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ ہی ان کا جواب دےسکتے ہیں“۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply