اہرام مصر اور خاک ِشِفاء/ابو جون رضا

عید کے موقع پر ایک جگہ جانا ہُوا تو وہاں اہرام مصر پر گفتگو ہوئی۔ ایک قابل ِ احترام شخصیت کی رائے تھی کہ جس زمانے میں یہ پیرامڈ بنے ہیں اس وقت سے آج تک ان کو بنانے پر انسان قادر نہیں ہوسکا ہے۔اس وقت جو قوم مصر میں تھی وہ کشش ثقل کو ختم کردینے کی صلاحیت رکھتی تھی اس وجہ سے وہ اتنے بڑے بڑے پتھروں کو ایک دوسرے کے اوپر جما دینے کے قابل ہوسکی۔ اس بات پر سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب کشش ثقل ختم ہوجاتی تھی تو خود انسان کے اپنے وجود کا کیا ہوتا تھا؟

اہرام مصر سادہ عمارتیں ہیں،اور ان کو دیکھ کر صرف یہ حیرت ہوتی ہے کہ پرانے دور کا انسان بھی اس طرح کی عمارات بنانے پر قادر تھا۔ تاریخ کے پَنوں کو اُلٹا جائے تو پتا چلے گا کہ ان پیرامڈز کے اندر ہزاروں انسانوں کا خون پسینہ شامل ہے جنہوں نے بیس سے تیس سال کے عرصے میں صبح شام جان جوکھوں میں ڈال کرکے اس کی تعمیر کی تھی۔

ڈاکٹر علی شریعتی جب اہرام ِمصر دیکھنے گئے تو انہوں نے ان ہزاروں غلاموں کی بربادی کا نوحہ لکھا جو اپنے آقاؤں کے ظلم کا شکار ہوکر ان پیرامڈز کی تعمیر کے دوران دب کر مر گئے۔

وہ لکھتے ہیں

“میں مصر کے تین اہرام دیکھنے گیا تیس ہزار غلام، تیس سال ان بڑے پتھروں کو 1000 کلومیٹر دور سے اپنی پشتوں پر لاد کر کام کرتے رہے۔ ان پتھروں کے بوجھ سے گروہوں کے گروہ مر جاتے۔ ہزاروں غلاموں کے گروہ فرعون کے حکم کے تحت اس کے نزدیک دفن کر دیے گئے۔ یہ اس لیے تاکہ وہ جو زندگی میں اس کے لئے کام کرتے تھے وہ موت کے بعد بھی اس کے لئے کام کریں لیکن اس دفعہ اپنی روحوں کے ساتھ۔”
لوگ ان کا موازنہ آج کل کی تعمیرات سے کرتے ہیں جو بالکل بچکانہ بات ہے۔ ایسا لگتا ہے ان کی نظر میں برج خلیفہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے جو دنیا کی بلند ترین عمارت ہے ۔ برج خلیفہ کی کُل بلندی 828 میٹر ہے جبکہ اس کی کُل منزلیں 162 ہیں۔ برج خلیفہ میں دنیا کی تیز ترین لفٹ بھی نصب کی گئی ہے جو 18 میٹر فی سیکنڈ (65 کلومیٹر فی گھنٹہ، 40 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔

کیا مصر کے وہ وحشی لوگ، برج خلیفہ جو صرف سات سال کی قلیل مدت میں تعمیر ہُوا، کا تصور کرسکتے تھے؟ جس کے اندر پورے عمارتی منصوبہ  میں 30ہزار رہائشی مکانات، 9 ہوٹل، 6 ایکڑ باغات، 19 رہائشی ٹاور اور برج خلیفہ جھیل شامل ہیں؟

وہ وحشی لوگ جن کا تمدن بتاتا ہے کہ ان کے پاس پہننےکو ڈھنگ کے کپڑے نہیں تھے اور وہ بس بادشاہوں کے لیے عمارتیں بناتے تھے ، یہ تصور کرسکتے تھے کہ ایک دن انسان نہ صرف ہوا میں اُڑے گا، بلکہ مریخ پر جاکر وہاں سے زمین پر لائیو کال کرے گا؟

حیرت ہے کہ انسان فرانس میں سمندر کے اندر چلنے  والی ٹرین کو دیکھ کر حیران نہیں ہوتا ، لندن میں ہزاروں فٹ شہر کے نیچے ٹرین کو چلتا دیکھ کر اس کو اچنبھا نہیں ہوتا مگر اہرام مصر کو دیکھ کر خلائی مخلوق کی باتیں کرتا ہے ۔

یہ انسانی المیہ ہے کہ وہ حال میں نہیں جیتا، اپنے اردگرد پھیلی سائنس کی ترقی اس کو نظر نہیں آتی مگر وہ ماضی کی قوموں کے ترانے پڑھتا ہے اور بتاتا ہے  کہ ایسے مقدس لوگ گزرے ہیں جن کے خون میں یہ تاثیر تھی کہ جہاں وہ شہید ہوئے وہاں کی مٹی “خاک ِشفاء” بن گئی اور ہر سال کسی مخصوص تاریخ کو اس خاک کی بنی ہوئی تسبیح کو ہَوا میں لایا جائے تو وہ خون گرانے لگتی ہے۔

کمال حیرت ہے کہ جس مذہب میں مٹی کھانا حرام ہے اس مذہب کے ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایک مخصوص جگہ کی خاک میں کسی کے مرنے کے بعد اللہ نے شفاء رکھ دی تھی؟

اور اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اسی مذہب کے سب سے بڑے مرجع اینجو پلاسٹی کروانے لندن پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی ان عقیدت مندوں سے پوچھے کہ ان مرجع عالی قدر کو یہ خاک جو ان کی گلی کے نکڑ پر ملتی تھی وہ کیوں نہ کھلائی گئی؟

اس کے بعد اسی خاک سے خون ٹپکنے کا عجب قصہ ہے کہ وہ کسی مخصوص دن خون گراتی ہے؟ کیا اس خاک کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا گیا ہے؟ مٹی کو فاسفورس میں ملا کر گوندھ کر تسبیح بنا لیجیے۔ وہ چمکنے لگے گی۔ اس میں کلر شامل کرلیجیے وہ ویسا ہی کلر دکھائے گی۔

کیا اس خاک کو ٹیسٹ کیا گیا ہے کہ آیا وہ زوردار آواز میں نوحہ پڑھنے سے خون گراتی ہے یا اس کے پاس گانا بجایا جائے تو تب بھی وہ خون برسانے لگے گی؟

وہ لوگ جو اس چودہ سو سال پہلے کی مقدس شخصیت کو غلطی پر قرار دیتے ہیں ، یعنی انہوں نے حکومت کے خلاف خروج کر کے غلطی کی، وہ کہتے ہیں کہ یہ خاک اصل میں یاد دلاتی ہے کہ اس مقدس شخصیت کے ہاتھوں کتنے معصوم لوگوں کی گردنیں کٹیں اور بلا فضول میں اس قدر خوں بہا کہ آج تک نہ رُک  سکا۔

سوال یہ ہے کہ کیسے ثابت ہوگا کہ یہ خون کس کی مظلومیت کی نشانی ہے؟

کیا کوئی جھوٹی روایت پیش کی جائے گی جس میں کسی خاتون کو خاک دی گئی تھی جو عین اسی روز خون آلود ہوگئی؟ جبکہ اصل میں وہ خاتون اس واقعے سے قبل انتقال فرماگئی تھیں۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جب وہ شخصیت شہید کی جارہی تھی اور اس کے بعد اس کے گھرانے کی عوام کو قیدی بنایا جارہا تھا تو اس وقت یہ خون کیوں خاک سے اتنا نہیں اُبلا کہ ظالموں کو بہا کر لے جاتا؟

اور جب اس وقت نہیں بہا تو آج ایک دو قطرے نکلیں گے تو کیا کمال ہوجائے گا؟

آج اس سے کیا ثابت ہوگا؟

اصولی بات یہ ہے کہ کسی بھی تاریخی واقعے کو جب پیش کیا جاتا ہے تو تاریخ کا طالب علم اس کو چھان پھٹک کر دیکھتا ہے، اس کا تجزیہ اور تحلیل کرتا ہے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے۔ کسی جن بھوتیا واقعے یا کرشماتی بات سے تاریخی واقعات کی جانچ نہیں کی جاتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ ہماری قوم کو عقل و شعور عنایت فرمائے اور واقعات کی درست جانچ کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اہرام مصر اور خاک ِشِفاء/ابو جون رضا

Leave a Reply