• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان جلتا رہا اور نیرو بانسری بجاتا رہا ۔۔عامر عثمان عادل

بلوچستان جلتا رہا اور نیرو بانسری بجاتا رہا ۔۔عامر عثمان عادل

دنیا کے پانچویں  بڑے  چلغوزے کے  جنگل میں  زیتون اور صنوبر کے درخت  اور نایاب جنگلی حیات جل کر راکھ ہوگئے۔اور وفاقی حکومت کو اپنی پڑی ہے۔صوبائی حکومت تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے میں مصروف ہے۔میڈیا کے نزدیک بھلا یہ کوئی  بریکنگ نیوز تھی۔
پیارے پڑھنے والو !
گذشتہ 12 روز سے بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگلات میں لگی آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

پس منظر
شیرانی بلوچستان صوبہ کا انتہائی  شمالی ضلع ہے جس کی سرحد جنوبی وزیرستان سے جا ملتی ہے۔کوہ سلیمان میں واقع اس علاقے میں چلغوزے زیتون اور صنوبر کے قدرتی جنگلات واقع ہیں جو کئی ہزار ایکڑ پر محیط ہیں اور ان جنگلات میں نایاب جنگلی حیات پائی  جاتی ہے۔مقامی آبادی کا واحد ذریعہ معاش ان جنگلات سے حاصل چلغوزے اور زیتون کی صنعت ہے۔ہوا کچھ یوں کہ خیبر پختون خوا  کے علاقہ مغل کوٹ میں اچانک یہ آگ بھڑک اٹھی جو اب کوہ سلیمان کے 50 کلومیٹر تک پھیل چکی ہے۔

مقامی آبادی کیسے متاثر ہوئی؟
یاد رہے کہ آگ لگے 12 روز سے زائد ہو چلے آغاز میں مقامی افراد نے اپنے محدود وسائل سے مقدور بھر کوششیں کر دیکھیں کہ وہ اس آگ پر قابو پا سکیں اور اپنے لوگوں کو بچا پائیں ان کوششوں میں 5 سے زائد مقامی لوگ شہید ہوئے اور متعدد افراد بری طرح جھلس چکے ہیں۔ان لوگوں نے بتا یا کہ بلوچستان حکومت کی بے حسی دیکھنے میں آئی جس نے کئی دن گذر جانے کے باوجود رتی برابر مدد نہ کی۔وفاقی حکومت میں شاید کسی کو خبر بھی نہ تھی،ہاں پاک فوج نے طیارہ بھیج کر اس آگ کو بجھانے کی کوشش ضرور کی۔

نقصان
گذرے 12 دنوں میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لئے کئی روز درکار ہوں گے ۔ ایک ابتدائی  رپورٹ کے مطابق اب تک چلغوزے کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد درخت مکمل طور پر جل کر کوئلہ بن چکے ہیں کم و بیش 10 کلومیٹر تک کا علاقہ راکھ کا ڈھیر بن چکا نایاب جنگلی حیات ” مارخور ” اور ” سلیمان ” بڑی تعداد میں اس آگ کی لپیٹ میں آ کر زندہ جل چکیں۔یوں ہزاروں سال قدیم درختوں پر محیط یہ خوبصورت جنگل جو کل تک زیتون اور صنوبر کا گلشن تھا اب یہاں سوائے راکھ کے کچھ نہیں بچا۔مقامی آبادی کے لوگ دھاڑیں مار مار رو رہے ہیں جن کا سب کچھ اس آگ نے نگل لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موجودہ صورتحال
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاک فوج اور ایف سی کے دستے ہنگامی بنیادوں پر امدادی کاروائیاں شروع کر چکے ہیں مقامی افراد کو محفوظ مقامات پہ منتقل کیا جا رہا ہے آگ کو بجھانے کی خاطر ہیلی کاپٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے اور اطلاع ہے کہ ایران سے فائر فائٹنگ ٹینکر طیارہ بھی پہنج کر آگ بجھانے میں مصروف ہے۔ضرورت اس امر کی ہے حکومت یہاں ایمرجنسی نافذ کرتی ہنگامی بنیادوں پر آگ بجھانے کی خاطر طیاروں کا انتظام کیا جاتا بین الاقوامی اداروں سے مدد طلب کی جاتی۔لیکن یہ ان کی ترجیحات میں کب شامل ہے ؟
بیساکھیوں کے سہارے کھڑی حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو چکی جسے کچھ سجھائی  نہیں دے رہا جس کے وزراء کرام دن رات نفرت انگیز بیانات اور مخالفین کی ماورائے قانون گرفتاریوں میں لگے ہیں
اور بلوچستان حکومت جس کی اصل ذمہ داری تھی اسے عدم اعتماد کا سامنا ہے۔
ثابت ہوا کہ ہمارے عوامی نمائندوں اور سرکاری افسروں کو اپنے اقتدار اختیار سے آگے کچھ دکھائی  نہیں دیتا ان کی بلا سے پورا ملک جل جائے۔ایسے میں پاک فوج کا دم غنیمت ہے جو ابتلا و آزمائش کی اس گھڑی بھی اپنا فرض نبھانے میں لگی ہے۔یہ آگ تو شاید بجھ ہی جائے گی لیکن اربوں روپے کے نقصان کا ازالہ کیسے ممکن ہو گا۔زیتون و صنوبر کے اجڑنے والے باغات کتنے برسوں میں آباد ہوں گے۔جل کر راکھ ہو جانے والی نایاب جنگلی حیات اور اس کا مسکن کیسے بحال ہو گا؟
سب سے بڑھ کر مقامی آبادی کے واحد ذریعہ روزگار کا متبادل کون فراہم کرے گا ؟
مورخ لکھے گا،ایک ملک ایسا بھی تھا جس کے زیتون و صنوبر کے باغات جل رہے تھے،دنیا کا پانچواں بڑا چلغوزے کا جنگل شعلوں کی لپیٹ میں تھا،نایاب جنگلی حیات بلبلا رہی تھی،مقامی افراد اس آگ میں کود کر ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں خود بھی جھلس رہے تھے۔اور ان کے حاکم”چین سے بانسری بجا رہے تھے”۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply