پہلے کون ؟

آسمان بادلوں کی لپیٹ میں ہے، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے، اور ساتھ ہی بارش کی ننھی ننھی بوندیں برس رہی ہیں۔
(ایک متوسط گھرانہ، جو کہ کل 9 نفوس پر مشتمل ہے)-

پہلا_منظر

والد صاحب ( جلال الدین) کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر گئے ہیں،
جبکہ والدہ ( عترت بی بی) گیراج میں رکھے استری سٹینڈ پر کپڑے استری کرنے میں مگن ہیں۔
سب سے بڑا بیٹا (حیدر علی ) اسلام آباد مقیم ہے اور دوسرے نمبر والا بیٹا (تراب علی) ایک کمرے میں بیٹھا پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہے۔
تیسرا بیٹا (قاسم علی) اپنے کام پر گیا ہوا ہے، اور اسکی اہلیہ (ہاجرہ بی بی) اپنے ایک ماہ کے بچے کو جھولا جھولانے میں مصروف ہے۔
اکلوتی بیٹی ( ایمان علی) بیٹھک کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر گلی میں جمع شدہ پانی میں بارش کی گرتی بوندوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے۔
سب سے چھوٹا بیٹا (عمران علی) جو کہ  الیکڑیکل انجینئرنگ کا طالبعلم ہے لیپ ٹاپ پر الیکڑک سرکٹ کی تصاویر دیکھ کر حساب کتاب میں مشغول ہے۔

دوسرا_منظر

دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔
ایمان پردہ گرا کر دروازے کی جانب لپکتی ہے۔
جی کون؟
جواباً والد صاحب کی آواز سنائی دیتی ہے
دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔
والد صاحب اندر داخل ہوتے ہیں اور بارش سے بھیگی چادر اتار کر کرسیوں کی پشت پر پھیلا دیتے ہیں۔
اندر داخل ہوتے وقت نحیف سی آواز میں سلام کیا، جسے بمشکل ہی کسی نے سنا ہو گا اور بیٹھک میں داخل ہو گئے۔
والدہ کپڑے طے کر کے باورچی خانے میں جاتی ہے، دودھ مگ میں ڈال کر بہو کے کمرے میں داخل ہوتی۔

تیسرا_منظر

ساس بہو سے مخاطب ہوتی ہے
ہاجرہ بیٹا،لاؤ، بچہ مجھے پکڑاؤ، اور تم یہ گرما گرم دودھ پی لو۔ رنگت دیکھو اپنے چہرے کی کیسی زرد ہو رہی ہے۔
ہاجرہ:- جی امی۔
ہاجرہ بچہ اپنی ساس کو پکڑاتی ہے، اور دودھ کا مگ پکڑ کر چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے لگتی ہے، بمشکل آدھا ہی دودھ پیتی ہے کہ بچہ رو پڑتا ہے۔
ہاجرہ:- امی جی مجھ سے نہیں پیا جائے گا، جب تک علی سو نہیں جاتا۔
یہ کہہ کے مگ رکھتی ہے اور بچہ (محمد علی) گود میں لے لیتی ہے۔

چوتھا_منظر

تراب علی لیکچر دے کر ٹی وی والے کمرے میں داخل ہوتا ہے، اور سامنے رکھی  ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے،
اتنے میں عترت بی بی برابر رکھے ہوئے صوفے پر آکر بیٹھ جاتی ہے اور اپنے بیٹے سے بات چیت شروع کر دیتی ہیں۔
تراب بیٹا، میں حیدر کے لیے بہت پریشان ہوں۔
تراب حیرانی سے، کیوں اماں، خیریت تو ہے ناں؟
عترت بی بی- نہیں بیٹا، آج حیدر کا دو تین بار فون آیا ہے، وہ بہت عجیب اور مایوسی کی باتیں کر رہا تھا۔
تراب- کیسی مایوسی اماں جان؟
عترت بی بی- بیٹا تجھے تو پتا ہے کہ تیرا بڑا بھائی اکیلا رہتا ہے اپنے دفتر میں، وہاں بڑے لوگوں کی اس پر نظر ہے۔
تراب- کیسی نظر اماں جی؟ پوری بات بتائیں؟ کیا ہوا ہے۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجتی ہے، تراب علی آنے کا اشارہ کر کے چلا جاتا ہے۔

پانچواں_منظر

تراب علی- جی امی اب بولیں، وہ بچے کی کال آگئی تھی۔ اب بتائیں، باقی بات۔
عترت بی بی- بس بیٹا کیا بتاؤں، حیدر کے پیچھے ایک ماہ سے ایک عورت پڑی ہوئی ہے، آئے دن دفتر آجاتی ہے، اور اس کے لیے کبھی کوئی تحفہ لاتی ہے، تو کبھی کوئی۔
تراب علی- (مزاحیہ انداز میں)لو جی! تو اس میں پریشانی والی کونسی بات ہے، کل کو پرپوز بھی کر دے گی۔
عترت بی بی- تو ہر وقت مذاق ہی کرنا۔ میں پریشانی میں ہوں، وہ عورت تین بچوں کی ماں ہے۔ اور حال ہی میں اس نے اپنے شوہر سے خلع لیا ہے۔
(تراب علی ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے)
کیا کہا؟ تین بچوں کی ماں؟ اور تحفے تحائف؟
یہ تو بہت عجیب بات ہے۔
عترت بی بی- خاموش ۔
تراب علی: تو حیدر بھائی کیا کہتے ہیں ؟
عترت بی بی- حیدر علی تو کہتا ہے کہ امی ، میں کر لوں شادی اس سے؟
لیکن وہ عورت کہتی ہے کہ شادی کی کیا ضروت ہے؟
کہتی ہے شادی میں کچھ نہیں رکھا۔میں نے شادی کر کے دیکھ لیا ہے۔
یہ سن کر تراب علی سر جھکا لیتا ہے۔

چھٹا_منظر

(بارش کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، اور اتنے میں عمران ، تراب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور ٹی وی آن کر کے میچ دیکھنے لگ جاتا ہے ۔
ہاجرہ محمد علی کو لوریاں دے رہی ہے، جو کہ زکام کی وجہ سے رو رہا ہے، اسی دوران جلال الدین صاحب وضو کے لیے گزر کر جاتے ہیں)
عمران علی – امی مجھے بھی بتائیں، کیا بات ہو رہی ہے؟
عترت بی بی- تو میچ دیکھ تیرے مطلب کی بات نہیں ہے میرے لال۔
عترت بی بی- تراب بیٹا، تو اپنے ابو سے بات کر، تیری بات شاید سن لیں، ہماری تو سنتے نہیں۔
تراب علی- واقعی اماں جی، اب حیدر بھائی کی شادی ہو جانی چاہیے، وہ انتیس برس کے ہونے کو ہیں، اور اب تو حالات کچھ زیادہ ہی خراب لگ رہے ہیں۔

ساتواں_منظر

(جلال الدین صاحب وضو کر کے آگئے ہیں، اور آستین درست کر رہے ہیں)
تراب علی نے گفتگو کا آغاز کیا،
ابو جی، وہ حیدر بھائی کیلئے۔۔۔۔
ابھی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ جلال الدین برس پڑے۔
میں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ پہلے بیٹی کی شادی کرو، اسکے بعد بڑے بیٹے کی کر لینا۔
تراب علی – لیکن ابو جی بہن کی عمر ابھی اتنی زیادہ بھی نہیں ہے، بھائی 6 سال بڑا ہے بہن سے، پہلے اسکا حق بنتا ہے،
جلال الدین – میری طرف سے جو مرضی کرو، میں نہ اسکی خوشی میں شریک ہوں گا، نہ غمی میں۔
تراب حیدر- لیکن اس کا قصور کیا ہے؟ صرف یہ کہ اس نے پھپھوکی اپنے سے 6 سال بڑی لڑکی سے شادی سے انکار کیا تھا؟ وہ بھی تب جب وہ اٹھارہ برس کا تھا؟
جلال الدین- میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا،
مجھ پر بیٹی کا فریضہ رہتا ہے۔۔۔
تراب علی بات کاٹ کر – اور جو بڑا بیٹا ہے؟ اسکا کوئی فرض نہیں بنتا آپ پر؟ وہ آپکا بیٹا نہیں ہے؟
جلال الدین- وہ میری ذمہ داری نہیں۔ وہ عاقل بالغ ہے، اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے۔
تراب علی- اگر اپنے ہی فیصلے کرنے ہوتے تو وہ اب تک کر چکا ہوتا۔
جلال الدین – میری طرف سے جو مرضی کرو۔
تراب علی – وہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا تو قصوروار کون ہے؟
اولاد کا نکاح والدین کی ذمہ داری نہیں ہے کیا؟
جلال الدین اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے اندر چلے جاتے ہیں۔

آٹھواں_منظر

فون کی گھنٹی بجتی ہے،
عترت بی بی نے فون اٹھایا- اسلام آباد سے اسمعیل شاہ بات کر رہا ہوں۔
کیا یہ حیدر علی کے گھر کا نمبر ہے؟
عترت بی بی- جی آپ کون؟
میں حیدر علی کے ساتھ والے دفتر میں کام کرتا ہوں آپ مہربانی فرما کر جلد از جلد سی ایم ایچ تشریف لے آئیں،
حیدر علی نے زہریلی گولیاں کھا لی ہیں، اور اسکی حالت خراب ہے۔
عترت بی بی کے ہاتھوں سے موبائل گر جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں کہ یہاں قصور کس کا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply