بکھرے ہوئے تارے / بنتِ مہر

جب کسی گونگے بہرے اور اندھے کے سامنے اس کے عزیزوں پر ظلم و ستم کیا جائے تو وہ اس ظلم و ستم سے انجان رہتا ہے اس لیے اسے فرق نہیں پڑتا اور وہ اپنی مستی میں رہتا ہے، یہی حالات آج کل مسلمانوں کے ہو چکے ہیں جو اندھے بہرے اور گونگے ہیں ،اسی لیے اپنے مسلمان بہن بھائیوں پر دنیا کے ہر کونے میں ہونے والے ظلم کو دیکھ کر اَن دیکھااور سُن کر اَن سنا کر دیتے ہیں اور اس پر آواز تک بلند نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں القدس کے مسلمانوں پر اسرائیلی بربریت کے باوجود امت مسلمہ کی غیرت فقط چند دن کے لیے جاگتی ہے جو کچھ دن بعد پھر اپنی پرانی غفلت کی طرف لوٹتے ہوئے گہری نیند سو جاتی ہے۔

غیرمسلم بھی ہماری غیرت ِاسلامی کی مختلف طریقوں سے جانچ کرتے ہیں اور پھر اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرتے ہیں۔جیسے حالیہ واقعہ کی مثال لے لیں، چند دن قبل اسرائیل کی وزارت ِداخلہ کی اپیل کمیٹی کے دفترمیں آویزاں مسجدِ اقصی ٰ کی تصویر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر والی، کیونکہ اس تصویر میں قبہ صخرا کے پیلے گنبد کی تصویر غائب تھی۔اس کی وجہ اسرائیلی انتظامیہ نے سستی اور لاپرواہی بتائی کہ کسی نے تصویر پر غور نہیں کیا اور فرق کو محسوس کیے بنا آویزاں کر دیا گیا لیکن میرے نزدیک اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے اور وہ ہے مسلمانوں کے جذبات کی جانچ کرنا کہ وہ قبہ صخرہ کے نہ ہونے پر کیسا ردعمل دیتے ہیں کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت قبہ صخرہ کو ہی مسجد اقصیٰ سمجھتی ہے اور ہمارے یہاں کتابوں اور رسالوں میں بھی مسجد اقصیٰ کے ذکر کےساتھ قبہ صخرہ کی تصویر چسپاں کی ہوتی ہے۔

قبہ صخرہ مسجد اقصیٰ نہیں ہے بلکہ اس کی تو تعمیر ہی اسلامی اموی خلیفہ عبدالملک نے 691 ہجری میں کروائی تھی۔قبہ صخرہ کی جگہ پر پہلے ایک رومی ٹیمپل “جوپیٹر” تھاجسے رومیوں نے یہودی “ٹیمپل سلیمان” کو منہدم کر کے اسی جگہ پر بنوایا تھا۔ اس کے اندر ایک بڑا سا پتھر موجود ہےجو مسلمانوں کو اس لیے عزیز ہے کہ اسے تمام انبیاء کرام سے نسبت حاصل ہے۔ اس پتھر پر رسول اللہ ﷺ بُراق پر سواری کر کے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے۔ صخرہ چٹان کو کہتے ہیں اور قبہ گنبد کو ،یعنی وہ گنبد جو چٹان پر قائم کیاگیا ہو۔خلیفہ عبدالمالک نے قبہ کا آئیڈیا قریب ہی قائم عیسائیوں کے چرچ سے لیا تھایہاں تک کہ دونوں کے قبوں کے سائز میں بھی تھوڑا ہی فرق تھا۔

صخرہ یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی مقدس ہے ۔ یہودیوں کے مطابق قبہ کے اندر موجود چٹان وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم نے اپنے پیارے بیٹے کے گلے پر ان کی قربانی کے لیے چھری چلائی تھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہود کے نزدیک وہ بیٹے حضرت اسحاق تھے اور مسلمانو ں کے نزدیک حضرت اسماعیل تھے۔ یہود کے نزدیک صخرہ پر ہی انبیاء کرام علیہم السلام تورات و زبور کی تلاوت کیا کرتے تھے اور یہیں سے فرشتے آسمانوں کی جانب  جایا  کرتے تھے۔یہودی عقائد کے مطابق تورات بھی صخرہ کے پاس ہی کہیں مدفون ہے۔

عیسائیوں کے نزدیک بھی صخرہ کی اہمیت مسلم ہے اسی لیے انہوں نے پہلی صلیبی جنگ جیت کرصخرہ کے ٹکڑے کاٹ کر بطور تبرک صلیبیوں کو  دے دیے، جسےوہ اپنے ملکوں میں جا کر ہم وزن سونا دے کر فروخت کر دیتے تھے۔ عیسائیوں نےصخرہ پر سنگ مرمر چڑھا دیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کرنے کے ساتھ ہی اکھاڑ دیا اور اس کی پہلی حالت بحال کردی۔عہد فاروقی میں بیت المقدس فتح ہُوا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہاں تشریف لائے ۔ آپ کا گزر صخرہ پر ہوا توآپ نے یہاں کچرے کا وہ ڈھیر دیکھا جو رومی یہاں لا کر ڈالا کرتے تھے۔ آپ نے وہاں سے کوڑا اٹھا کر دور پھینکا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کا حکم دیا۔اس روز سے صخرہ مسلمانوں کی حفاظت میں آ گیا۔

بیت المقدس کی زیارت کے دوران نماز کا قت آگیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب بن احبار سے پوچھا نماز کس جگہ ادا کی جائے توانہوں نے قبہ صخرہ کے پیچھے نماز ادا کرنے کا مشورہ دیا لیکن حضرت عمر فاروق کو ان کا مشورہ پسند نہیں آیا اور انہوں نے فرمایا “میں اس جگہ نماز پڑھوں گا جہاں آقا ﷺ نے نماز پڑھائی ہے۔”پھر آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد اقصیٰ یعنی نیلے گنبد والی مسجد میں نماز ادا فرمائی۔جب مسجد اقصیٰ تعمیر کرنے کا وقت آیا تو مسجد ِ اقصیٰ کے ساتھ قبہ صخرہ کی جگہ مسجد صخرہ جسے مسجد عمر بھی کہا جاتا ہے اس کی تعمیرعمل میں آئی۔یہ مسلمان فاتحین کا انداز تھا کہ جب بھی کوئی نیا شہر تعمیر کرتے تو وہاں مسجد کی تعمیر ضرور کی جاتی۔اس وقت مساجد نہایت سادگی سے تعمیر کی جاتی تھیں لیکن اموی خلیفہ عبدالملک نے مساجد کی تعمیر میں جدت پیدا کی۔مسجد صخرہ اپنی غیرمعمولی دلکشی کے باعث ہر دور کے مسلمانوں کے لیے پُرکشش رہی اس لیے اس کی تعمیر و مرمت میں اموی عباسی اور فاطمی خلفاء کے ساتھ ساتھ عثمانی خلفاء بھی پیش پیش رہے۔جبکہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد کی۔ بعض مورخین کے خیال کے مطابق مسجد اقصیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک مسلسل آباد رہی اور حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں آنے والے طوفان کی وجہ سے وہ بھی منہدم ہو گئی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کی۔ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کی تعمیرا شروع کروائی جو کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی تھی۔حضرت داؤد اپنی وفات سے قبل یہ کام مکمل نہیں کر پائے تھے تو ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کو مکمل کروایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسجد اقصیٰ اور قبہ صخرہ کی تصویروں کو خلط ملط کرنے میں بھی ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے جو مسجد اقصیٰ پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس خوش فہمی میں ہیں کہ ایک دن وہ القدس کو اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کے لیے منہدم کریں گے اور مسلمانوں کے احتجاج کرنے پر ان کے سامنے قبہ صخرا لا کر رکھ دیں گے کہ سب ٹھیک ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کی اکثریت تو مسجد اقصیٰ سے ہی نا آشنا ہے وہ اسرائیل کو تو جانتے ہیں لیکن مسجد اقصیٰ کو نہیں۔ جو فلسطین کے بارے میں تو درد دل رکھتے ہیں لیکن اقصیٰ کی مظلومیت ان کو غمزدہ نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے ہمارے دل کچھ دیر کے لیے تڑپ اٹھتے ہیں لیکن کچھ دن کے پُرزور احتجاج کے بعد ہمارا احتجاج کم ہوتے ہوتے دم توڑ دیتا ہے زیادہ دور نہیں جاتے ،اس بُدھ کا واقعہ بطور مثال لے لیتے ہیں جہاں نماز فجر کے بعدمسجد اقصیٰ میں موجود نمازیوں پر اسرائیلی فوج نے بربریت کی انتہا کرتے ہوئے تشدد کیا اور پھر اس وحشیانہ کارروائی کے بعد کم سے کم چار سو نمازیوں کو مسجد اقصیٰ سے گرفتار کیا جن کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے مقدس مہینے میں اپنی مسجد میں عبادت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔کسی کی عبادت گاہ پر حملے کو دنیا بد ترین دہشت گردی تصور کرتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کھلی دہشت گردی پر مسلمانوں نے تو خوب احتجاج کیا چلیں وقتی ہی سہی ہماری غیرت ایمانی تو جاگی لیکن انسانی حقوق کے ٹھیکیدار اس کھلی بدمعاشی پر گونگے کا گُڑ کھائے بیٹھے ہیں تو اس کی وجہ مسلمانوں کی ہی بے حسی ہے۔ جب جسم کا کوئی عضو  تکلیف میں ہو تو باقی اعضاء اس تکلیف کی وجہ سے بے چین ہو جاتے ہیں لیکن یہاں تو ہم اپنے بہن بھائیوں کو کٹتے مرتے دیکھ کر بھی سکون میں ہیں اور اپنی زندگی کی پلاننگ میں کبھی ان کو شامل نہیں کرتے جو ہر روز ہماری مدد کے منتظر ہوتے ہیں ہم لوگ ایک امت ہونے کی بجائے بکھرے ہوئے تا روں  کی طرح ہیں جو صرف خود کو اپنی روشنی دیتے ہیں اور دوسروں کو اس روشنی سے محروم رکھتے ہیں ۔خدارا جاگیں اور ایک اُمت بن جائیں جو اپنےمسلمان بہن بھائیوں کی تکلیف کا سُن کر ان کو دور کرنے تک سکون سے نہ بیٹھیں۔ اب تو جاگیں اور ایسے جاگیں کہ دوبارہ کوئی سازش ہمیں غافل نہ کر سکے۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدمبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے!

Facebook Comments

بنت مہر
کرانا ہے قلم ہاتھوں کو، رودادِ جنوں لکھ کر تو اس دور ستم پرور میں میرا ہم قلم ہو جا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply