کون کہتا ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ/محمود اصغر چوہدری

روسانہ چاچری چلی گئیں ۔ تھوڑی دیرپہلے ان کی آخری رسومات کی لائیو کوریج دیکھی تو بطور پاکستانی اپنی احسان فراموشی اوراجتماعی بے حسی پر افسوس ہوا ۔ اسے آخری بار گڈ بائے کہنے صر ف سات آٹھ معزز پاکستانی پہنچے تھے حالانکہ اگر روسانہ کی امیگرنٹس یامسلمانوں کے بارے خدمات کو دیکھیں تو وہ ان شخصیات میں سے تھیں جنہوں نے اپنی زندگی پناہ گزینوں،مسلمانوں ، فلسطینیوں اور کشمیر یوں کے حقوق کی آواز اٹھانے کے لئے وقف کر دی ہوئی تھی۔

میری ان سے ملاقات میاں آفتاب کی رہائش گاہ پر کریمونہ میں ہوئی تھی۔ جہاں وہ یوم پاکستان کی تقریب کے لئے سرگرم تھیں ۔جو کریمونہ شہر میں ہر سال منعقد ہوتی ہے ۔ ان سے ملاقات میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنی جدوجہد میں کتنی جنونی ہیں ۔ جس عورت کو اپنے کام کے دوران یہ تک بھول جائے کہ وہ عورت ہے ۔ یعنی وہ سجنا ، سنورنا اور اچھے کپڑے تک پہننا بھول جائے اسکے لئے اس کاکام ایک مشن ہوتا ہے ۔وہ شروع میں انڈین اور افریقی شہریوں کے لئے سرگرم تھیں ۔ لیکن جب انہوں نے کشمیریوں کے حقوق کے بارے مطالعہ کیا تو وہ مسلمانوں او ر خاص طور پر پاکستانیوں کے لئے متحرک ہوگئیں ۔

انہوں نے غیر ملکیوں کے حقوق کے لئے ایک تنظیم بنا رکھی تھی ۔ ماضی میں ان کا تعلق قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تھے اس لئے وہ قانونی جدوجہد کو سمجھتی تھیں۔جب انہیں پتہ چلا کہ اٹلی میں مسلمان اپنے سنٹر تو خرید لیتے ہیں لیکن انہیں مسجد کا نام نہیں دے سکتے بلکہ اسے اسلامک سنٹر کہتے ہیں توروسانہ چاچری وہ شخصیت تھیں جنہوں نے لومباردیا عدالت میں کیس دائر کر دیا اور کیس جیت گئیں کہ اطالوی آئین مسلمانوں کو مسجد بنانے کا حق دیتا ہے ۔ پھر کیا تھا تمام امیگرنٹس مخالف تنظیمات ان کے خلاف ہوگئیں اور انہیں اتنا تنگ کیا کہ انہیں اپنا سوشل میڈیا اکاﺅنٹ تک بند کرنا پڑا لیکن وہ اپنی جدوجہد سے باز نہ آئیں

کریمونہ کونسل ہر سال ایک شام فلسطین کے نام پروگرام کرتا تھا ۔ اٹلی میں سردار مسعود خان کے دورے کے دوران روسانہ نے کریمونہ کونسل کے ساتھ معاہدہ سائین کروایا کہ یہ کونسل ہر سال ایک شام کشمیر کے نام سے پروگرام بھی کیا کرے گا۔الغرض تارکین وطن شہریوں کے خلاف کوئی قانون ہو، امیگرنٹس کے بچوں کے حق کے لئے کوئی قانون ہو ، یا کوئی بھی دیگر معاملات جن کا تعلق مسلمانوں یا پاکستانیوں یا غیر ملکیوں سے ہو وہ ایک توانا آواز کی صورت میں سامنے آئیں ۔وہ ناصرف سیاسی جدوجہد کر رہی تھیں بلکہ وکلاءکے ساتھ ملکرپناہ گزینوں اور غیر ملکیوں کو قانونی مدد بھی فراہم کر ر ہی تھیں ۔میرا خیال تھا کہ روسانہ چاچری کی آخری رسومات میں اتنے زیادہ پاکستانی جائیں گے کہ قبرستان میں جگہ کم پڑجائے گی لیکن ہم بطور مسلمان اور بطور پاکستانی ایک احسان فراموش قوم ہیں ۔ مجھے یاد ہے جب میں ڈاکٹر ویتو سالیرنو کی آخری رسومات پر پہنچا تو حیران رہ گیا کہ وہاں بھی ہم تین چار پاکستانیوں کے علاوہ ایک قونصل جنرل زاہدخان اور ایک ان کا ڈرئیوار تھا۔ حکومت پاکستان نے انہیں پھولوں کا ایک گلدستہ بھیجا تھا حالانکہ یہ  وہی ویتو سالیرنو تھے جنہوں حکومت ستارہ امتیاز دے چکی تھی اور جب ان کا دورہ بریشیا اور میلان کے کسی پروگرام میں ہوتا تو بیسیوں لوگ پھولوں کا گلدستہ لیکر ان کے لئے کھڑے ہوتے تھے ۔

گاؤں میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ چودھری کا گھوڑا مر گیا تو سارا گاؤں افسوس کے لئے آیا ۔ جس دن چودھری خود مر گیا تو کوئی بھی نہیں آیا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم پاکستانیوں کا یہی المیہ ہے ۔ جسے ہم کبھی تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ پتہ نہیں کس بھولے شاعر نے لکھ دیا ہے  یہ اور بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ ۔۔۔ ایسا بالکل نہیں ہے ۔ تارکین وطن پاکستانی ایسا کچھ نہیں کر یں گے۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply