عشق مصطفیٰ،اخلاق حسنہ اور ہم۔۔فراست محمود

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱)
ترجمہ: بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہی رحمت اور اخلاق حسنہ ہے ،بے شک آپ نے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی عرب قوم کو اپنے اخلاق حسنہ سے اپنے کردار سے اپنے عمل سے اپنی طرف قائل کر لیا۔اللہ تعالیٰ کی لاریب کتاب نے آپ کے اخلاق حسنہ پہ مہر تصدیق ثبت کر دی۔اور فرمان خداوندی ہےسورہ قلم میں ہے!
وانک لعلی خلق عظیم۔
“اور بے شک آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز ہیں۔
آنحضرت کے فرمان ذیشان کے مطابق !
ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “ایمان کے اعتبار سے کامل ترین مؤمن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہترہو”.
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا!
إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق۔
“بے شک میں اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہوں”۔

جہاں ایمان کی تکمیل “اعلیٰ ترین اخلاق” بتائی جارہی ہو وہاں گالم گلوچ یا بد اخلاقی چہ معنی دارد۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا”اخلاق یہ ہیں کہ کوئی تمہیں گالی دے تو تم بدلے میں دعا دو،جب تمہیں برا کہے تم اس کو اچھا کہو،جو تمہاری بدخوئی کرے تم اس کی تعریف کرو،اچھائی بیان کرو،جو تم پر زیادتی کرے تم اس کو معاف کر دو”۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت کی غمخواری کی، اپنے ازلی وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا، نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کرکے بھائی چارگی اور الفت ومحبت کے چشمے بہائے، یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھ کر فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے، صحابہ اعلان کرتے ہیں ”الیوم یوم الملحمة“ آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج شمشیروسناں کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے، آج ہم اپنے دشمنوں کے گوشت کے قیمے بنائیں گے، آج ہم ان کی کھوپڑیوں کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہٴ جوالہ بن کر خرمن کفار کو جلاکر بھسم کردیں گے اور گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہوا، رحمت نبوی جوش میںآ ئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں ”لاتثریب علیکم الیوم واذہبوا انتم الطلقاء“ کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائیگا، یہ تھاآپ کا اخلاق کریمانہ، یہ تھا آ پ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ، جس کی مثال سے دنیا قاصر ہے۔

حتیٰ کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کی حیات مبارکہ میں پیار،محبت اخلاق،معافی کے اتنے واقعات ہیں کہ کاغذ و قلم بیان کرنے سے قاصر ہے اور جب فرما دیا گیا کہ آپ کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے تو ہم اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے لئے آپ کی زندگی سے کیوں سبق حاصل نہیں کرتے ہمیں کیوں بدلے کی آگ کے لئے آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے علاؤہ ہمیں حوالے دینے پڑتے ہیں کیوں ہم جھوٹا عشق لوگوں پہ مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں ہم سستے عشق کے خریدار بنے ہوئے ہیں عشق آخر بلا کیا ہے۔عشق عشق کردی میں آپے عشق ہوئی۔حیرت ہے کہ عشق کے اظہار کے لئے زبان کی ضرورت پڑ رہی ہے ہم کوحالانکہ عشق کے لئے ہم کو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ہمارا جسم،ہماری روح ہمارا عمل عشق کی غمازی کرتا ہے۔ لکھنے والوں نے عشق کو خود خدا لکھ دیا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں جس کا کوئی ثانی نہیں کوئی منزل نہیں۔عشق کا تو جہاں سے گزر ہوجائے وہاں خوشبوئیں مہکنے لگتی ہیں۔محبتیں پھیلنے لگتی ہیں روشنیاں پھوٹنے لگتی ہیں۔یہ کیسا عشق ہے جو ہر طرف آگ لگا رہا ہے نفرت پھیلا رہا ہے گردنیں اتار رہا ہے۔عشق دوسروں کو نہیں صرف خود کو جلانے کا نام ہے۔
عشق کے بارے میں علامہ اقبال صاحب بانگ درا میں فرماتے ہیں!
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عشق کی منزل اتنی آسان نہیں ہے کہ ہر کوئی اس کو پاسکے۔عاشق ہونے کے لئے خود کو محبوب کے رنگ میں رنگنا پڑتا ہے۔اپنا آپ گنوانا پڑتا ہے ایسا ہونا پڑتا ہے جیسے معشوق کی رضا ہو۔سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔بلاچوں چراں اطاعت گزار ہونا پڑتا ہے۔وہ عاشق کیا جو خود کو محبوب کے رنگ میں نہ رنگ سکے۔جو اپنا آپ معشوق کے مطابق نہ ڈھال سکے۔اگر ہم ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو یقیناً ہم اپنے عشق کے دعوے میں سچے نہیں کھوکھلے ہیں بالکل اپنے کھوکھلے نعروں کی طرح۔
ہم نام نہاد عاشقوں کا کیسا عشق ہے۔جو خود کو نہیں دوسروں کو جلا رہا ہے۔دوسروں کی زندگیاں اجیرن کر رہا ہے۔دوسروں کو ایذا،تکلیف پہنچا رہا ہے۔چیخ چلا کے ہم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ !
خود نمائی نہیں شیوہ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو بڑے آرام سے جل جاتے ہیں

ہمارا عشق کیسا عشق ہے جو اپنے سب سے بڑے محبوب حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کا نام لے کر مرنے مارنے کے لئے تو تیار ہے مگر جینے کے لئے نہیں۔کیسا عشق ہے جو کوڑے والی مائی جیسے رحمت اللعالمینی کے واقعات کو ماننے سے انکار کیے بیٹھا ہے۔اپنے اندر کی آگ کو بجھانے کے لئے قرآنی احکامات اور حدیث مقدسہ کی تشریحات من مرضی سے کرنے کا قائل ہے۔ایک دوست نے کہا “کہ عشق اصول و ضوابط نہیں دیکھتا بلکہ جذبات میں بہا لے جاتا ہے تو دست بستہ عرض کی دین جذبات کا نام نہیں ہے بلکہ عقل و سمجھ حکمت عملی اور احسن طریقے سے فرائض سر انجام دینے کا نام ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کے چالیس سال عرب کی جاہل قوم کو انسانیت سیکھائی۔انسانیت کی پہچان کروائی۔لوگوں کو بطور انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے طریقے سیکھائے اور اپنے عمل سے ثابت بھی کیا کہ حضور اپنے پرائے سبھی کے لئے ہی رحمت ہیں آپ عظمت بشر تبھی ہیں کہ تمام عالم انسانیت کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں۔مگر آج ہم اور ہمارا جھوٹا عشق سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے صدیوں دور ہیں۔جب تباہی و بربادی ہم آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پہ کر رہے ہیں اور کریں گے تو یقیناً آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے راضی نہ ہوں گے اور ہم جو اللہ کی سر زمین پہ فساد پھیلاتے ہیں ہمارے اس روئیے کے بارے قرآن مجید میں مختلف جگہ پہ واضح اور سخت احکام آئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ
: سورة البقرة 11۔وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔
اور اللہ فرماتا ہے کہ- :
سورة البقرة 12۔اَلَاۤ اِنَّہُمۡ ہُمُ الۡمُفۡسِدُوۡنَ وَ لٰکِنۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۲﴾یاد رکھو یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے۔
سورة المائدة 33
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۳۳﴾
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خوں ریزی، رہزنی، ڈاکہ زنی، دہشت گردی اور قتلِ عام کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے
: سورة الأعراف 56
وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۶
اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اللہ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے
: سورة الأعراف 86
وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوۡعِدُوۡنَ وَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ ۪ وَ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿۸۶﴾
اور تم ہر راستہ پر اس لئے نہ بیٹھا کرو کہ تم ہر اس شخص کو جو اس (دعوت) پر ایمان لے آیا ہے خوفزدہ کرو اور (اسے) اللہ کی راہ سے روکو اور اس (دعوت) میں کجی تلاش کرو (تاکہ اسے دینِ حق سے برگشتہ اور متنفر کر سکو) اور (اللہ کا احسان) یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تو اس نے تمہیں کثرت بخشی، اور دیکھو فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوا
: سورة التوبة 47
لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۷﴾
اگر وہ تم میں (شامل ہو کر) نکل کھڑے ہوتے تو تمہارے لئے محض شر و فساد ہی بڑھاتے اور تمہارے درمیان (بگاڑ پیدا کرنے کے لئے) دوڑ دھوپ کرتے وہ تمہارے اندر فتنہ بپا کرنا چاہتے ہیں اور تم میں (اب بھی) ان کے (بعض) جاسوس موجود ہیں، اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے
: سورة بنی اسراءیل 53
وَ قُلۡ لِّعِبَادِیۡ یَقُوۡلُوا الَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ یَنۡزَغُ بَیۡنَہُمۡ ؕ اِنَّ الشَّیۡطٰنَ کَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا ﴿۵۳﴾
اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں، بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقیناً  شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے
: سورة النمل 14
وَ جَحَدُوۡا بِہَا وَ اسۡتَیۡقَنَتۡہَاۤ اَنۡفُسُہُمۡ ظُلۡمًا وَّ عُلُوًّا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ ﴿٪۱۴﴾
اور انہوں نے ظلم اور تکبّر کے طور پر ان کا سراسر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل ان (نشانیوں کے حق ہونے) کا یقین کر چکے تھے۔ پس آپ دیکھئے کہ فساد بپا کرنے والوں کا کیسا (بُرا) انجام ہوا
: سورة القصص 83
تِلۡکَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ نَجۡعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۸۳﴾
(یہ) وہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے ایسے لوگوں کے لئے بنایا ہے جو نہ (تو) زمین میں سرکشی و تکبر چاہتے ہیں اور نہ فساد انگیزی، اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے
۔ : سورة ص 28
اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ ﴿۲۸﴾
کیا ہم اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے اُن لوگوں جیسا کر دیں گے جو زمین میں فساد بپا کرنے والے ہیں یا ہم پرہیزگاروں کو بدکرداروں جیسا بنا دیں گے
: سورة محمد 22
فَہَلۡ عَسَیۡتُمۡ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ اَنۡ تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ تُقَطِّعُوۡۤا اَرۡحَامَکُمۡ ﴿۲۲﴾
پس (اے منافقو!) تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم (قتال سے گریز کر کے بچ نکلو اور) حکومت حاصل کر لو تو تم زمین میں فساد ہی برپا کرو گے اور اپنے (ان) قرابتی رشتوں کو توڑ ڈالو گے (جن کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مواصلت اور مُودّت کا حکم دیا ہے)

ہم عشق نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میں کھوکھلے اور احکامات خداوندی سے جب کوسوں دور ہوں گے تو یقیناً پرائے لوگ نہ صرف ہمارا مذاق اڑائیں گے بلکہ جو تشخص ہم اپنے دین کا دنیا پہ پیش کر رہے ہیں اس کی توہین بھی کریں گے۔ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا جب ہم اپنے نبی کے فرمان !
“من غش فلیس منا۔
”جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔جب ہم اس کو نظر انداز کر کے دھوکہ دیں گے ملاوٹ سے باز نہیں آئیں گے تو یقینی طور پہ توہین ہی کے مرتکب ہوں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں(سنن ابی داوٴد: ۴۹۴۳ باب فی الرحمة)
جب ہم اس حکم کو نظر انداز کریں گے تو توہین ہی کے مرتکب ٹھہریں گے۔

آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ذخیرہ اندوزوں کو ملعون قرار دیا ہے اور ہم آج اس عمل کو بھی سرانجام دے کر آپ کے سامنے ملعون ہی ہیں

ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور اسی طرح جب چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔
ملاوٹ،رشوت خوری،ظلم،ماں باپ سے بد سلوکی ،چوری ،زنا،بد اخلاقی الغرض آج ایسی کوئی معاشرتی برائی نہیں ہے جو ہم سرانجام نہیں دے رہےاور توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتکب نہیں ہو رہے؟؟ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس معاشرے کو ظاہری مذہب کا لبادہ تو اوڑھا دیا ہے مگر باطنی (مومن) مسلمان تو کیا اچھا انسان بھی معاشرے کو نہ دے سکے ہیں۔
خود کو خالی نعروں سے عاشق رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر کرنا بہت آسان جب کہ عملاً ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔سب سے پہلے ہمیں اپنے کرداروں کو پختہ کرنا ہوگا دنیا کو بتانا ہو گا کہ ہم “عظیم پیغمبر” کی عظیم امت ہیں۔

کسی کے ایمان کو اپنی خواہشات سے مشروط نہ کریں اور نہ کفر کے سرٹیفکیٹ بانٹیں کسی پہ خواہ مخواہ گستاخی کے فتاوی جاری نہ کریں اور نہ ہی سر راہ سر تن سے جدا کرنے کے نعرے لگائیں ۔خدا کے کرنے کے کام خدا پہ چھوڑ دیں۔ایک دوست نے سوال کیا اگر ناموس رسالت کے لئے نہیں لڑو گے تو کل حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دیکھاؤ گے تو میرا جواب اگر سرکار دوعالم رحمت اللعالمین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اگر تمہاری اس لڑائی کے طریقے کو غلط قرار دیا تو تم کیا کرو گے؟؟ بے شک نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی ہمارے ایمان کی شرط ہے اور اس محبت کا ثبوت ہمیں کردار سے دینا ہوگا نہ کہ گفتار سے۔
ہمارے نبی رؤف رحیم،کریم،صادق وامین سراپا رحمت ہی رحمت اور اسی وجہ سے عظیم بھی ہیں۔
میرا پیغمبر عظیم تر ہے
بشر نہیں وہ عظمت بشر ہے

میری ذاتی رائے ہے کہ مغرب کی ان گستاخانہ حرکتوں کے بدلے میں ہم اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بڑھا دیں اور دنیا پہ ثابت کریں کہ ہمارا دین ہی مکمل دین ہے جو امن ،امن اور فقط امن و محبت کا درس دیتا ہے۔
بطور مسلمان اور پاکستانی شہری ہونے کے میں فرانس کی اس قبیح حرکت کی مذمت کرتا ہوں اور وزیراعظم پاکستان نے ناموسِ رسول و محبت رسول کے متعلق اقوام متحدہ اور تمام مغربی دنیا کو جس طرح اگاہ کیا اس سے مطمئن ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ۔قرانی حوالہ جات کے لئے ایک دوست کی تحریراور گوگل سے مدد لی گئی جب کہ ترجمے کے لئے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ترجمہ کردہ عرفان القرآن سے استفادہ کیا گیا ہے).

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply