پیالی میں طوفان (43) ۔ بارش اور پہاڑ/وہاراامباکر

ٹائم سکیل کا انحصار اس پر بھی ہے کہ ہم کس چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کے لئے بارش کے قطرے اور پہاڑ کا موازنہ کرتے ہیں۔
بارش کا قطرہ ایک سیکنڈ میں بیس فٹ نیچے گرتا ہے۔ اس ایک سیکنڈ میں کیا ہوا؟
قطرہ مالیکیولز کا گھچا ہے جو اپنے گروپ کی جکڑ میں نہیں لیکن اندر سے ہر وقت حرکت میں ہیں۔ پانی کے ایک مالیکیول میں ایک آکسیجن اور دو ہائیڈروجن کے ایٹم ہیں۔ یہ V کی شکل بناتے ہیں۔ ایک مالیکیول اپنے جیسے اربوں مالیکیولز کے کمزور نیٹورک میں مڑ رہا ہے اور کھینیچا جا رہا ہے۔
اس ایک سیکنڈ میں ایک مالیکیول شاید دو کھرب بار قطرے کے اندر چھلانگ لگا چکا ہو۔ جب یہ باہری سطح تک پہنچتا ہے تو اس کے باہر کچھ ایسا نہیں ہوتا جو اندر کی جانب کی مخالفت کا سامنا کر سکے۔
پانی کے بہت سے مالیکیول آپس میں جڑے ہیں۔ ہائیڈروجن بانڈنگ کی وجہ سے یہ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ کوئی بھی سطح پر نہیں رہنا چاہتا کیونکہ اس سے یہ غیر متوازن ہو جاتا ہے۔ اندر کی طرف آنے کے لئے کشتی جاری ہے۔ اس کی وجہ سے باہر کی سطح پر الاسٹک سا تنا ہوا ہے۔ لیکن گریویٹی اسے نیچے کو کھینچ رہی ہے اور یہ گروہ ایک سیکنڈ میں دو منزلہ عمارت جتنا سفر کر رہا ہے۔ ہاں پر الگ قوتوں کی جنگ جاری ہے۔ بیرونی قوتیں جو اسے توڑ دینا چاہتی ہیں اور اندرونی یکجہتی کی قوت جو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے۔ اس دھینگا مشتی میں اس کی شکل کبھی روٹی کی طرح ہو جاتی ہے تو کبھی گیند کی طرح، کبھی چھتری کی طرح، کبھی پھٹ جاتا ہے تو کبھی واپس جڑ جاتا ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں شکلیں بدل رہا ہے۔ یہ بارش کے پانی کا قطرہ ہے (اس کی شکل کتاب میں بنے ایک طرف سے گول اور دوسری طرف سے چونچ رکھے قطرے کی طرح ان کروڑوں بار میں سے ایک بار بھی نہ ہوئی ہو گی)۔
ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے۔ لیکن پلک جھپکتے کے وقت میں اس نے ایک ارب شکلیں بدل لی ہیں۔
اور پھر یہ بنجر چٹان پر گر گیا اور اب ٹائم سکیل بدل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پتھر گرینائٹ کا تھا۔ انسانی تاریخ میں اسے کسی نے نہ ہلایا تھا اور نہ اس میں کوئی تبدیلی آئی تھی۔ لیکن چالیس کروڑ سال قبل یہ زمین کے جنوبی کرے میں ایک بڑا آتش فشاں تھا۔ نیچے سے آنے والا لاوا شگاف ڈھونڈ کر سطح تک پہنچا تھا۔ اگلے ہزاروں سالوں میں یہ سرد ہوا اور الگ اقسام کے کرسٹل میں آہستہ آہستہ بٹ گیا۔ اور سخت گرینائٹ کی صورت اختیار کی۔ وقت گزرتا رہا۔ اس پتھریلے سلسلے کو برفانی عہدوں نے مسلا۔ پودے آئے۔ برف اور جڑوں نے اس آتش فشانی پتھر کے کچھ حصے کو پاؤڈر بنانا شروع کر دیا۔ کبھی بارش ہو جاتی تھی اور اسے دھو دیتی تھی۔
اور یہ ساکن بھی نہیں تھا۔ زمین کے بڑے ٹکڑے اس کی سطح پر تیر رہے ہیں۔ یہ شمال کی جانب رواں دواں تھا۔ اس کے اوپر زندگی کی نت نئی انواع آتی رہیں۔ ارضیاتی عہد آتے اور جاتے رہے۔ ہمارے سیارے کی مشین اپنی سطح کے ٹکڑوں کو ملاتی اور جدا کرتی رہے۔
اور صرف چالیس کروڑ سال بعد ۔۔۔ یہ زمین کی زندگی کا دسواں حصہ ہے ۔۔۔ اس ڈرامائی دیوہیکل آتش فشاں کا جو حصہ بچا ہے، وہ اس کا تھوڑا سا بے نقاب پیٹ ہے۔ آج اس کو بین نیوس کہا جاتا ہے۔ یہ برطانوی جزائر کا سب سے اونچا پہاڑ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں اور آپ پہاڑ یا بارش کے قطرے کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہونے والی تبدیلی کو محسوس نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ وقت کے بارے میں ہماری perception محدود ہے۔
ہم ٹائم سکیل کے بیچ میں رہتے ہیں اور کئی بار ہمارے لئے ان سے باہر کی چیزوں کو سنجیدہ لینا بھی مشکل ہوتا ہے۔
اور یہاں پر ایک سوال ہے کہ “اب”، “حال” یا “موجودہ وقت” کیا ہے؟ کیا موجودہ سال؟ صرف موجودہ ملی سیکنڈ؟
اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ بات کس چیز کی کی جا رہی ہے۔ ہم بہت تیز رونما ہونے والے واقعے کو دیکھ رہے ہیں یا انتہائی سست رفتار کو۔ فرق رفتار کا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply