مجھے سٹریس لگتی ہے(قسط1)۔۔عارف انیس

یہ پوسٹ اور اگلی سطریں احتیاط سے پڑھیں، کیونکہ یہ آپ کی سٹریس کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں۔
مجھے شدید سٹریس لگی ہوئی ہے۔ آئی ہیو سیویر سٹریس!
پچھلے 22 سالوں میں یہ فقرہ ہزاروں مرتبہ سنا۔
کوئی 8،000 سے اوپر دن ہوگئے۔
تقریباً 22 سال پہلے کی بات ہے جب اپلائیڈ سائیکالوجی میں ماسٹرز کیا، پھر نفسیات کے مختلف میدانوں میں میں درجن بھر بین الاقوامی اداروں سے تربیت حاصل کی۔ اللہ نے توفیق دی کہ این ایل پی کے بانی رچرڈ بینڈلر، اور ایموشنل انٹیلیجنس کی ٹرم کے خالق ڈینیل گول مین اور اسی قبیل کے دیوزادوں سے براہ راست سیکھا۔ کلینیکل سائیکالوجی کو میدان نہ بنایا مگر سائیکو تھراپی میں مسلسل سیکھنا جاری رکھا جو ایگزیکٹو کوچنگ میں کام آیا۔ تاہم پہلے 10 سال میں مسلسل ایک غلطی کرتا رہا۔
جب بھی مجھے کوئی پھولی ہوئی سانسوں اور زمین بوس سیلف اسٹیم کے ساتھ بتاتا کہ مجھے سٹریس ہوگئی ہے تو میرا اگلا سوال ہوتا “اوہو، آپ کو کون سی چیز سٹریس دیے رہی ہے”۔ اب دس سال بعد میں اپنے اس سوال کو سوچتا ہوں تو مجھے اپنی حماقت ہر ہنسی آتی ہے۔
بلامبالغہ ہزاروں افراد جو مجھ تک پہنچتے تھے ان کا جواب واضح ہوتا تھا۔ ان کو واضح طور پر معلوم تھا کہ انہیں سٹریس کون دے رہا ہے۔ سٹریس دینے والے ان کے باسز تھے، دفتر کے کولیگ تھے، ان کی ساسیس تھیں، ان کے شوہر تھے، ان کی بیویاں تھیں، شوہروں کے چکر تھے، محبوب کی بے وفائیاں تھیں، ان کے نالائق اور بدتمیز بچے تھے، بزنس پارٹنرز تھے، ان کے اماں ابا تھے، پرانے دوست تھے، ملک کا صدر تھا، وزیراعظم تھا، چیف آف آرمی سٹاف تھا، ملک کا نظام تھا، موسم تھا، غرض یہ کہ جہاں بھر میں بہت کچھ تھا جو انہیں سٹریس دے رہا تھا، سوائے ان کی اپنی ذات کے!
میرا یہ مغالطہ این ایل پی کے بانی رچرڈ بینڈلر نے دس سال پہلے پھوڑا جب ہپناسس پر ایک ٹریننگ سیشن کے دوران وہ ایک ڈیمو دے رہے تھے۔ میں رچرڈ بینڈلر کو اپنی زندگی میں ملنے والے 100 غیر معمولی ترین انسانوں میں شمار کرتا ہوں۔
“مجھے بہت سٹریس ہے۔ آئی ہیو لاٹ آف سٹریس”۔ سنہرے بالوں والی نارویجن لڑکی کارلا نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے رچرڈ سے کہا۔
“کون سی جیب میں رکھا ہے وہ سٹریس؟” رچرڈ نے اسے گھورتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔
لڑکی کے چہرے پر سے کئی رنگ گزر گئے۔
“دراصل میں بہت سٹریس لیتی ہوں”۔ کارلا نے تھوک نگلتے ہوئے بمشکل کہا۔
” تو لینے سے انکار کردو پھٹاک سے اگلا جواب منہ پر لگا۔
” میرے سر، گردن اور پورے اوپر والے حصے پر سٹریس کی وجہ سے بہت بوجھ ہے “کارلا اب تقریباً رونے والی ہوچکی تھی۔
” تو ایسا کرو وہ بوجھ اتار کر نیچے رکھ دو، کیوں اٹھائے پھر رہی ہو “۔ رچرڈ نے بغیر کسی تاثر کے کھردرے لہجے میں کہا۔
میں جو کچھ دیکھ رہا تھا، میری سمجھ سے باہر تھا۔ مزید ہکا بکا میں اس وقت رہ گیا جب کارلا 20 منٹ کے سیشن کے بعد قلانچیں بھرتی پھر رہی تھی کہ وہ اپنی 15 سال پرانی سٹریس پر قابو پا چکی تھی۔
اس دن ڈی بریفنگ ہوئی تو میں رچرڈ سے الجھے بغیر نہ رہ سکا۔ میں اکیلا بھی نہیں تھا، دو یورپین ماہر نفسیات بھی میرے ساتھ تھیں اور رچرڈ سائیکو تھراپسٹس کو” سائیکو دا ریپسٹ “پکار رہا تھا اور ہمیں چڑاتے رہا تھا۔
” ہوں۔ تم کونسلنگ کے غچے کھا کر آئے ہو۔ تمہارے خیال میں مجھے کارلا سے پوچھنا چاہیے تھا، اوہ کارلا، میری جان، تمہیں کون سٹریس دے رہا ہے اور پھر اگلے دو دن میں بیٹھ کر اس کی کہانیاں سنتا، اس کی ماں، اس کے شوہر، اس کی سہیلی کی برائیاں سنتا اور پھر اسے لمبا سا بل بنا کر بھیج دیتا۔ تم لوگ چول ہو سالے “۔ اس نے دھم سے میز پر ہاتھ بجایا۔
” سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تم ماہر نفسیات سالے الٹا مسئلہ بڑھانے کے ذمہ دار ہو۔ سٹریس، وٹریس کی شکایت رکھبے والے لوگ اپنے علاوہ پوری دنیا کو اپنے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ بندہ، وہ بندہ یا بہت سے بندے ان کی سٹریس کے ذمہ دار ہیں۔ اگر تم انہیں تھپکیاں دیتے ہوئے ان کی کہانیاں سنتے رہو گے تو وہ یہ کیسے سیکھ سکیں گے کہ سٹریس لینے میں ان کا کردار سب سے ضروری ہے۔ “رچرڈ نے تقریباً دھاڑتے ہوئے کہا اور پھر ایک تاریخی جملہ بولا۔
“اگر تم سٹریس کا شکار ہو تو یہ یاد رکھو کہ دنیا بھر کے لوگ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، تم ان کے افعال کے ذمہ دار نہیں ہو۔ تم صرف اپنے کیے کے ذمہ دار ہو۔ تو جب وہ تمہیں سٹریس دے رہے ہوں، تو تم لینے سے انکار کر دو “۔
میر ے سر پر جیسے کسی نے ٹھنڈے پانی کی بالٹی ڈال دی۔ مجھے دس برس بعد معلوم ہوا کہ سٹریس کے متاثرین سے میرا پہلا سوال ہی غلط تھا۔
یہ جاننا کہ ہمارا موڈ ہماری اپنی ذمہ داری ہے، ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ تبھی پچھلے دس برس سے میں نے کسی سے نہیں ہو چھا کہ اسے سٹریس کون دے رہا ہے۔ کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سٹریس لینے والے کو بس، سٹریس دینے والے کو، سٹریس وصول کرنے سے انکار کرنا ہے اور کھیل ختم!
شاید آپ یہ بات پڑھ کر ہنسے ہوں گے۔ بھلا یہ اتنی آسان بات کیسے ہوسکتی ہے؟ کیوں کہ آپ اپنے گھر میں اور آس پڑوس میں ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو کہ سٹریس لینے کا، بیس، تیس اور چالیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں اور بہت سے لوگ ان کو ایک لاعلاج کیس تصور کرتے ہیں۔
ہم جو کام مسلسل کرتے رہتے ہیں ہم اس کام کے ایکسپرٹ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ مسلسل خوشی پریکٹس کرتے ہیں وہ خوشی کا مسل ڈویلپ کرلیتے ہیں۔ جو مسلسل اداس رہیں، وہ دیوداس بن جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو کام ہم ہر روز کرتے ہیں اور برسوں تک کرتے جاتے ہیں، وہ ہمارے نفسیاتی ڈی این اے کا حصہ بن جاتا ہے۔
یہ مت سمجھئیے کہ سٹریس میں کوئی فارن ایلیمنٹ یعنی آپ کی ذات سے باہر کچھ ملوث نہیں ہوتا۔ آپ کے ہاں فوتگی ہوسکتی ہے، خوانگی جھگڑے، طلاق وغیرہ بہت سٹریس دیتے ہیں، مالی بحران، مالی نقصان، سفر کرنا، ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونا، ایکسیڈنٹ ہوجانا، حسد، جلن، کڑھن، نفرت اور اسی طرح کی بہت سی وجوہات آپ کے آس پاس ہوسکتی ہیں۔ تاہم خاص طور پر جذباتی بخار میں مبتلا لوگ غصے، صدمے، تشویش، ڈپریشن کا جلد شکار ہوجاتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ کسی بھی واقعے کے بارے میں ان کا تصور ہے۔
یاد رکھیں مسئلہ وہ نہیں جو ہوچکا ہے، بلکہ اس بارے میں آپ کا مخصوص تصور ہے۔ وہ آواز ہے جو آپ کے کانوں میں آرہی ہے اور وہ وڈیو ہے جو آپ اپنے خیالوں میں چلا رہے ہیں۔ پھر ہماری پرانی عادتیں ہیں جن کی وجہ سے ہم سٹریس لینے کے ماہر ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی ہم کسی واقعے کے بارے میں سٹریس کے فریم ورک کے ساتھ سوچتے ہیں، ہمارے سانس پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور جسم میں سٹریس ہارمون ایڈرینالین اور کارٹی سول چھوڑ دیتا ہے، اب بارہ مصالحے پورے ہوجاتے ہیں اور آپ کھل کر جتنا پریشان ہوسکتے ہیں، ہو لیتے ہیں۔
ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سٹریس کس وجہ سے ہے۔ سٹریس آپ کی مخصوص عینک، طریقہ حیات اور سوچ سمجھ کا چکر ہے۔ باہر کی دنیا آپ کے بس سے باہر ہے، سینکڑوں، ہزاروں چیزیں ہوتی رہیں گی اور آپ اپنے آپ کو ہلکان کر بیٹھیں گے /گی۔ آپ کو کسی اور پر نہیں، خود پر کام کرنا ہے۔ اپنی عینک کا نمبر درست کرنا ہے اور شاید شیشے بھی بدلنے پڑیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ جاننا کہ آپ اپنی سٹریس کے خود ذمہ دار ہیں آپ کے لیے کافی سٹریس فل ہوگا، کیوں کہ دنیا بھر کو اپنے مسائل کا سبب سمجھنا ایک بہت بڑی عیاشی ہے۔
یہ ذہن میں رکھیں کہ مسلسل سٹریس کی شکل میں آپ اپنی زندگی کی کوالٹی سے محروم ہو جائیں گے۔ اور یہ اس نعمت کی بہت بڑی ناشکری ہوگی۔
( اگلی قسط میں سٹریس کی فزیالوجی اور پھر نفسیات سمجھتے ہیں۔ آپ کھل کر بتائیں کہ آپ کی سٹریس کا چکر یا سائیکل کیا ہے اور سٹریس کی عادتیں کیا ہیں؟ اگر آپ پانچ قسطوں کے اس سفر میں شامل رہیں تو انشاءاللہ اپنی سٹریس پر مکمل قابو پا لیں گے)
عارف انیس
( زیر تعمیر کتاب “صبح بخیر زندگی” سے اقتباس )

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply