سترھویں پارے کا خلاصہ

اس پارے میں دو سورتیں ہیں سورۃ الانبیاء اور سورۃ الحج۔
*سورة الأنبياء*
بارے کی ابتدا سورۃالانبیاء سے ہوتی ہے. اس سورت میں مسلسل کئی انبیاء کا تذکرہ ہے، اس لیے اس کو انبیاء کہا گیا۔
قیامت کے ذکر سے اس کی ابتدا ہوئی۔ آخرت، حساب و کتاب کی تیاری اور کتاب اللہ سے ہدایت کے معاملے میں غفلت دکھانے پر تنبیہ کی گئی۔ کفار جو افترا پردازیاں قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے ان کا ذکر کرکے نبی کریم سے فرمایا گیا کہ پہلے بھی جو لوگ ایمان نہیں لائے وہ ہلاک کر دیئے گئے، لہذا ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔
ایک اہم اصول یہ بتایا گیا کہ اگر *کسی چیز کا علم نہ ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو* ۔ ثابت ہوا کہ علم میں کوئی تکبر اور حیا نہیں ہونی چاہیے۔ جس کسی چیز میں بھی شبہ ہو، یا کسی بھی اعتبار سے اس کا علم کم ہو تو اس کو *اہل ذکر* ( *وہ لوگ جو ہر لمحہ اللہ ہی کا ذکر کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کیا ھے؟ درود و سلام تو جو لوگ ہر لمحہ درود و سلام پڑھتے ھوئے آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں ایک لمحہ کے لئے بھی مخلوق کی آسانی اور بخشش کی فکر سے آزاد نہ ھوں وہی اہل ذکر ھوتے ہیں* ) لوگوں سے معلوم کر لینا چاہیے۔
پھر نبی کی بعض خصوصیات بتائیں کہ وہ ہمیشہ انسان اور مردوں میں سے ہوتے ہیں۔ اللہ نے کبھی کسی فرشتے کو نبی بنا کر نہیں بھیجا۔
قرآن کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی کہ یہ وہ کتاب ہے جو تمہارا ہی ذکر کرتی ہے۔ یعنی کہ جو اس پر عمل کرے گا اس کو عزت اور شرف ملے گا۔ اور یہ بھی اس کا مطلب ہے کہ اس میں تمہارے سب معاملات کا ذکر اور رہنمائی موجود ہے۔
پچھلی قوموں کے انجام سے خبردار کیا گیا کہ انکار کرنے والوں کے ساتھ کیا بیتی۔ یہ کائنات کھیل کے لیے پیدا نہیں کی گئی، بلکہ اس کی تخلیق کا ایک خاص مقصد ہے۔ فرشتوں کا ذکر کیا کہ وہ عبادت کرکے تھکتے نہیں اور نہ ہی اس سے تکبر کرتے ہیں۔ اگر *اس کائنات میں ایک سے زیادہ خدا ہوتے تو اس کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ اللہ کی کبریائی اور پاکی بیان کی گئی اور فرمایا کہ اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا۔ وہ مخلوق کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرے اس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ لیکن اللہ اپنی مخلوق سے ہر طرح کی باز پرس اور سوال کر سکتا ہے*۔
ہر نبی کو ذکر کے لئے کتاب دی اور توحید کی تعلیم دی۔ ساری مخلوق اللہ کی تابعدار ہے اور اسی کے حکم پر چلتی ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق کی بعض نشانیاں بتائی گئی، اور فرمایا کہ اللہ نے ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی۔ کائنات میں غور وفکر کی دعوت دی گئی۔ چناچہ ان علوم کا جن کے ذریعے سے کائنات کا علم حاصل ہو، اور اس کی وسعت انسان کے لیے کھلے حاصل کرنا بھی عبادت ہے۔ ان کے ذریعہ سے اللہ کی تخلیق کا علم حاصل ہوتا ہے اور اللہ کے حکم کی تکمیل ہوتی ہے۔
دائمی دنیاوی زندگی کسی کے لئے نہیں، حتی کہ انبیاء کے لیے بھی نہیں۔ ہر کسی کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ انسان کو اچھے اور برے دونوں طرح کے حالات سے آزمایا جاتا ہے۔ *اللہ ہی کی طرف سب لوٹ کر جائیں گے*۔ چناچہ ناپسندیدہ پر صبر اور پسندیدہ پر شکر کرنا چاہیے۔
کافروں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اللہ کی ناقدری کرتے ہیں۔ انسان کے بارے میں بتایا گیا کہ انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ہر چیز کی جلدی کرتا ہے۔ چناچہ مستقبل کی فکر بھی عجلت پسندی کی بدولت ہوتی ہے۔ اس جلدبازی کو قابو کرنا بھی انسان کے اختیار میں ہے۔ اسی لئے اس کے بعد فرمایا گیا کہ جلدبازی مت کیا کرو۔ چناچہ تحمل اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔
پھر آگ اور روز قیامت سے کافروں کو ڈرایا گیا کہ وہ دن یکدم آئے گا اوسان خطا کر دے گا۔ یہ بھی بتایا دیا گیا کہ جو کسی کا مذاق اڑاتا ہے وہ خود اسی میں گر جاتا ہے۔ اللہ کے مقابلے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ خوشحالی کا لمبا عرصہ بھی انسان کو دھوکے میں ڈال دیتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کی آزمائش ہے۔ قیامت کے دن رائی کے دانے کے برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ ہر چیز میزان میں تولی جائے گی۔
اس سورت میں حضرت نوح علیہ السلام سے لیکر عیسیٰ علیہ السلام تک متعدد انبیاء کا ذکر فرمایا گیا۔ تورات کا ذکر نور اور فرقان کی صفت سے کیا گیا اور فرمایا یہ قرآن بھی مبارک اور نور ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا گیا کہ کس طرح انہوں نے اپنی قوم کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ توحید کی تعلیم اور اس کی طرف دعوت دی۔ یہ بھی واضح ہوا کہ کفار کے شرک کی دلیل ہمیشہ آباؤ اجداد کی پیروی ہوتی ہے۔ اس واقعے کا ذکر کیا کہ کس طرح ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ جس پر بادشاہ نے سزا کے طور پر ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا۔ اس وقت معجزانہ طور پر آگ ٹھنڈی ہوگئی اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی والی بن گئی۔ اس آزمائش کے صلے میں ان کو بیٹے کے ساتھ ساتھ پوتے کی بھی خوشخبری دی گئی۔ اور ان کی تعریف کی گئی کہ یہ صالح اولاد تھے لوگوں کے رہنما بنائے گئے اور عبادت گزار تھے۔
پھر موسی علیہ السلام لوط علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کا مختصر تذکرہ ہوا۔ داود و سلیمان علیہ السلام کا ذکر ان کی قوت فیصلہ کی صفت کے ساتھ کیا گیا۔ ایک واقعہ ذکر کیا کہ جس میں سلیمان علیہ السلام نے داود علیہ السلام سے بہتر فیصلہ کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ بعض دفعہ کم عمر لوگ بڑوں سے بہتر فیصلہ اور رائے دیتے ہیں۔ اس لیے ہر کسی کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے، اس کا عمر سے کوئی تعلق نہیں۔
نعمتوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ خوش نصیب داؤد اور سلیمان علیہ السلام تھے۔ ان کے جیسی سلطنت اور اختیار کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ لیکن انہوں نے ان سب چیزوں کو اللہ کی اطاعت میں لگایا۔
ایوب علیہ السلام کی دعا کے ساتھ ان کا ذکر ہوا۔ ادریس، زکریا، ذوالکفل، یحیی، یونس اور مریم علیہم السلام کا ذکر کیا گیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کسی کو نعمتوں کے ذریعے آزمایا جاتا ہے اور کسی کو آزمائشوں کے ذریعے سے، جیسے ایوب علیہ السلام کو بیماری سے آزمایا گیا۔ ان کے صبر سے صبر کا عملی سبق ملتا ہے۔
ان سب انبیاء کی خصوصیت بھی بتائی کہ ان کی دعائیں قبول کی گئیں، کیونکہ یہ نیکی میں جلدی کرتے تھے اللہ کو خشیت اور رغبت سے یاد کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے۔ چنانچہ *دعا ہمیشہ خشوع، شوق اور عشق و یقین سے مانگنی* چاہیے۔
یہ تمام انبیاء ایک ہی امت تھے اور وہی امت نبی کریم کی بھی ہے۔ جو مومن نیک عمل کرتا ہے اس کی کوشش کی ناقدری نہیں ہوگی۔
قیامت اور روز قیامت کا ذکر کیا گیا جہنم کی ہولناکی بیان کی۔ ساتھ ہی خوشخبری بھی دی کہ نیک لوگ اس جہنم کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے، اور من پسند نعمتوں میں ہونگے۔ زمین کے وارث نیک بندے ہی ہوتے ہیں۔
آخر میں *حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر اس خاص وصف کے ساتھ فرمایا کہ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔* پھر مضمون توحید پر سورہ انبیاء کا اختتام ہوا کہ *تمہارا معبود ایک ہی ہے تو اسی کی بندگی کرو وہ سب کچھ جانتا ہے اور اسی سے مدد طلب* کی جاتی ہے۔
*سورة الحج:*
یہ سورہ مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی۔ ابتداء میں لوگوں کو مخاطب کرکے اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی گئی، اور قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے اس سے ڈرایا گیا۔ پھر قیامت اور حشر و نشر کی بعض دلیلیں پیش کی گئیں کہ جس نے تمھیں مٹی سے پہلی بار پیدا کیا ہے اور جو مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے وہ تمھیں دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس کی قدرت سے خارج کچھ نہیں۔
پھر ان کا ذکر کیا گیا جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی دلیل کے جھگڑا کرتے ہیں، لوگوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکاتے ہیں، ان کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ اسی طرح *کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی عبادت بالکل کنارہ پر کھڑے ہوکر کرتے ہیں۔ اگر خیر پائیں تو مطمئن رہتے ہیں اور اگر دین کے راستے میں کوئی فتنہ یا مصیبت آجائے تو دین سے ہی پلٹ جاتے ہیں*۔ بتایا کہ ایسے لوگ دنیا و آخرت میں ناکام ہیں۔ ان سے *کمزور یقین والے مسلمان مراد ہیں* جن کے عمل میں پختگی نہیں ہوتی۔ انہیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ اس *بے یقینی کی بدولت* تمہاری دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔
پھر فرمایا کہ اللہ تعالی مومنین کو جنت میں داخل کرے گا۔ وہ روز قیامت اہل ادیان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔
نیز بتایا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے وہ اور بہت سے انسان اللہ کے حضور سر بسجود ہیں۔ جبکہ بہت سے انسان اور جن ایسے ہیں جن پر عذاب لازم ہوچکا ہے۔
اس کے بعد دو فریقوں کا تذکرہ ہوا جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں اختلاف کیا۔ پس ان میں سے کافر جہنم میں جائیں گے جہاں سے کبھی نکل نہیں سکیں گے۔ البتہ مومن جنت میں داخل ہونگے جہاں ان کو ریشمی ملبوسات وغیرہ مہیا ہونگے۔
پھر مسجد حرام کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ یہ کفار جو لوگوں کو اللہ کے راستے اور مسجد حرام میں جانے سے روکتے ہیں انہیں اپنے کیے کا بدلہ عذاب کی صورت میں ملے گا۔ اللہ کا یہ گھر ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اس لیے تعمیر کیا تھا تاکہ اس میں اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی جائے اور سب جگہوں سے لوگ اس کا قصد کریں، اس میں اللہ کا ذکر بلند کریں اور اسی کی عبادت کریں۔ چنانچہ *سب کو چاہئیے کہ اللہ کی حرمتوں اور اس کے شعائر کی تعظیم و احترام کریں۔ شعائر اللہ کا مذاق اڑانا تقوی کے خلاف ہے۔* یہ بھی بتایا کہ قربانی کے اونٹ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں، ان کا خون اور گوشت اللہ تک نہیں پہنچتا بلکہ وہ صرف قربانی کرنے والے کے تقوی کو جانچتا ہے۔
اس کے بعد کچھ مدنی آیات ہیں جن میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی، ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اللہ تعالی اہل ایمان کا دفاع کرتے ہیں۔ اور اہل ایمان وہ ہیں جن کو اگر زمین میں اقتدار بخشا جائے تو وہ نماز، روزہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہتمام کرتے ہیں۔
پھر آپ کو مخاطب کرکے تسلی دی گئی کہ اسی طرح آپ سے پہلے پچھلی قوموں نے بھی اپنے انبیاء کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کو ہلاک کیا۔ یہ لوگ ان کے واقعات سے عبرت کیوں نہیں پکڑتے۔ اللہ تعالی اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتے، عذاب اپنے وقت پر آکر رہے گا جلدی مچانے سے اس کا وقت تبدیل نہیں ہوگا۔
یہ بھی بتایا کہ ہر نبی کی دعوت کی راہ میں شیاطین روڑے اٹکاتے ہیں، لیکن اللہ تعالی اپنے نبیوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہی ایمان والوں کو سیدھے راستے کی سمت ہدایت دیں گے۔ روز قیامت فیصلہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، وہ سب کے درمیان فیصلہ کرے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔
اس کے بعد اللہ کی قدرت کی بعض نشانیاں ذکر کی گئیں، جیسے رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنا، آسمان سے پانی برسا کر اس سے سبزہ اگانا، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اس کو انسانوں کے لیے مسخر کرنا، آسمان کو تھامے رکھنا کہ وہ زمین پر نہ آ گرے، وغیرہ۔ نیز یہ بھی واضح کیا کہ اللہ نے تمھیں پیدا کیا ہے وہی موت دے کر دوبارہ بھی زندہ کرے گا۔
پھر مشرکین کی بابت بتایا کہ اللہ کی آیات سن کر ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، ان کے لیے آگ کا ہی وعدہ ہے۔ پھر ایک تمثیل کے ذریعے کفار کے معبودوں کی بے وقعتی واضح فرمائی کہ وہ ایک مکھی بھی نہیں بناسکتے۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اللہ ہی قادر و علیم مطلق ہے اور وہی عبادت کا حقدار ہے ۔
آخر سورہ میں مسلمانوں کو نماز، زکاة اور جہاد کا حکم دیا گیا۔ بتایا کہ اللہ نے تمھیں اپنے دین کے لیے چنا ہے، لہذا اپنے باپ ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو اسی نے تمھارا نام مسلمان رکھا ہے۔ تمھاری ذمہ داری یہ ہے کہ جس طرح رسول تم پر گواہ بنائے گئے ہیں اسی طرح تم انسانوں پر اس دین حق کے گواہ بنو (یعنی اپنے اقوال و افعال و کردار سے انسانیت کو اس دین کی دعوت دو اور اس کے حق ہونے کی گواہی دو)۔ اس کام میں اللہ سے مدد طلب کرو وہی بہترین کارساز اور مدد کرنے والا ہے۔ سو کیا اچھا کارساز ہے اور کیسا اچھا مددگار۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply