پاکستانی قوم بطور بت پرست۔۔۔رانا اورنگزیب

 اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہٰ الا اللہ
چند سطور جو میں لکھنے جارہا ہوں کسی مسلک فرقے یا شخصیات پر تنقید نہیں بلکہ درد دل کی ایک کیفیت ہے جو اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔میرے الفاظ اگر کسی کو سخت لگیں یا کسی کی بھی دل آزاری کا موجب بنیں تو میں پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
مسدس حالی سے چند شعر
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے   آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خیال اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جاۓ !
محمدﷺ نے جب اپنی قوم کو جمع کرکے فرمایا کہ اے میری قوم لاالہ الاللہ۔۔ کہہ دو تم کامیاب ہو جاٶ گے تو سب سے پہلا اعتراض کا جو پتھر میرے آقا کی طرف آیا وہ نبیءاکرم صلی اللہ وعلیہ وسلم کے سگے چچا کی طرف سے تھا۔اور یہ شخصیت پرستی کا ایک کھلا ہوا اظہار تھا۔ پھر ساری زندگی ابوجہل کے نام سے گزاری اور آخر تک اپنی شخصیت پرستی پر ڈٹا رہا۔کچھ دوستوں کو شخصیت پرستی کے لفظ پر اچنبھا ہوگا۔کہ جناب بت پرستی کو شخصیت پرستی لکھ رہا ہوں۔
بھائیو! بت پرستی بجاۓ خود کچھ چیز نہیں نا ہی بت کسی کو بول کے کہتا ہے کہ میری پوجا کرو۔بت پرستوں کے پنڈت پروہت پجاری ہی یہ سب باتیں اپنے پیروکاروں کو بتاتے ہیں۔اب پنڈت پروہت پجاری کی شخصیت ایسی ہوتی ہے جس کے سامنے انسان   بچپن سے اپنے والدین اور بزرگوں کو ادب سے جھکا ہوا  دیکھتا ہے۔تو اسکے ذہن  میں اس کی عزت وحرمت اور بڑائی ایک پاکیزہ ہالا بنا کے  بیٹھ جاتی ہے عموماً اپنی موت تک انسان اس ہالے سے باہر نہیں نکل پاتا۔
اب آتے ہیں میرے موضوع کی طرف پاکستان میں الحمدللہ مسلمان اکثریت میں ہیں۔پاکستان بنا ہی اسلام کی بنیاد پر تھا۔ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر معرض وجود میں آنے والی ریاست میں آپ کو مسلمان نظر آۓ گا نہ مسلمان مسجد۔سب اپنے اپنے بزرگان کو ہی دین کا منبع سمجھ رہے ہیں۔چار بڑے مسلک پاکستان میں رائج ہیں۔ہر مسلک دوسرے تین کی نظر میں گستاخ مشرک گمراہ حتیٰ کہ کافر ہے۔ کیا اسلام کی تعلیمات یہی ہیں؟۔ ہر مسلک کے پیروکار اپنے اکابرین کو مکمل مسلمان دین کا ستون اور ہر قسم کی لغزش سے پاک سمجھتے ہیں۔ یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں، لا الہٰ الا اللہ چلیں مسلکی اکابر تک بھی بات ماننے میں آجاۓ مگر یہاں تو اپنے مسلک کے ہر مولوی کی لایعنی درفنطنی کا ایسے دفاع کیا جاتا ہے جیسے چیل اپنے بچوں کا کرتی ہے۔مسلکی جھگڑوں کی اصل یہی ہے کہ ہر بندہ اپنے مسلک کے عالم کو حرف آخر سمجھتا ہے۔جبکہ قرآن پاک میں مالک کائنات نے واضح فرمایا ہے۔کہ اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور بااعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے(القرآن۔پانچواں پارہ)
اللہ پاک تو فرماتے ہیں جب تم کسی بات پر آپس میں جھگڑے میں پڑ جاؤ  تو اپنی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے کے جا ؤ اور اللہ کے کلام سے اسکا حل نکالو۔اگلی بات بھی سمجھا دی کہ اگر اللہ پر قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہی اپنی اختلافی باتوں کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی طرف لے جائیں گے اور اپنے اختلاف کا حل قران وسنت سے نکالیں گے۔میرے مسلکی جھگڑوں میں پڑنے والے بھائیوں کے لیے اللہ پاک کی اس بات میں غور وفکر کی دعوت ہے۔
ذرا سوچیۓ!! یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لا الہٰ الا اللہ مسلک کی شخصیت پرستی سے باہر نکلیے اور اپنے اذہان وقلوب سے ان شخصی بتوں کو توڑ کے باہر پھینکیے۔کیونکہ کسی بھی عالم کی بات حرف آخر نہیں بلکہ حرف آخر یا قرآن  پاک ہے یا سنت رسول۔ اسکے بعد آتے ہیں پیر پرست ان لوگوں نے اپنے اپنے پیروں کو دل کے کعبے میں لات ومنات کی طرح سجا کے بیٹھے ہیں۔انکی ایسی ایسی تقدیس بیان کرتے ہیں کہ الحضر والاماں۔نعوذو باللہ پیروں فقیروں اور ولیوں کے سامنے رب کائنات کو بھی مجبور محض بنا کے رکھ دیا ہے عقیدت کے اندھوں نے۔کیا یہ بت پرستی نہیں ؟اگر اپنے پیروں ولیوں کے لیے لامحدود طاقتیں اور انکے تصرفات ثابت کرنے میں کلمہ گو اور خود کو مسلمان کہنے والے ثابت کرتے پھرتے ہیں تو پھر ابوجہل کا کیا قصور تھا وہ بھی یہی کہتا تھا کہ اللہ ہے مگر یہ ہمارے سفارشی ہیں۔ساڈی سندا نئیں تے ایناں دی موڑدا نئیں۔
اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جب مشرکین کشتیوں میں سوار ہوکے سمندر میں اترتے ہیں تو طوفان کے ڈر سے خالص اللہ کو پکارتے ہیں اور جب اللہ انکو کنارے لے آتا ہے تو یہ پھر کہتے ہیں ہمیں تو فلاں نے بچایا فلاں نے بچایا۔مگر ہمارے کلمہ گو مسلمان ہونے کے باوجود دریا میں آواز لگاتے ہیں بہاوالحق بیڑا دھک۔ غور وفکر اور تدبر پڑھنے والوں کے ذمے۔ انکے بعد آتے ہیں مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکن جو اپنے مذہبی لیڈر کی گندگی کو مشک وعنبر ثابت کرنے کی کوشش میں اپنے عزیزواقارب اور دوست احباب تک سے بگاڑ مول لینے سے نہ ڈرتے ہیں نہ چوکتے ہیں۔ کیا یہ شخصیت پرستی کے زمرے میں نہیں آتا۔کیا یہ کبھی اپنے دلوں سے اپنے قائدین کے بت نکال پائیں گے؟ اس کے بعد سیاسی پارٹیوں کے کارکنان ہیں جو اپنے اپنے پارٹی سربراہوں کی ہر الٹی سیدھی بات کا تحفظ کرنا اپنا دینی واخلاقی فریضہ تصور کرتے ہیں۔اپنے پارٹی سربراہ کی پلیٹ میں پڑے گوبر کو حافظ کا اصلی ملتانی سوھن حلوہ ڈیکلیئر کروانے میں خود بھی وہی گندگی کھانے کو چوبیس سات تیار رہتے ہیں۔

 

سیاسی کارکنوں کی شخصیت پرستی کا اندازہ لگالیں کہ اپنے لیڈران کی ہر درفنطنی ہر جرم کا دفاع کرتے ہوۓ ہر طرح کی اخلاقی و معاشرتی حدود پامال کرتے اک لمحہ بھی نہیں ہچکچاتے۔ یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں، لا الہٰ الا اللہ کتنے پاکستانی سیاسی کارکن ایسے ہیں کہ دن رات صبح شام اپنے پارٹی سربراہوں کی کسی بات کو لے کر مخالفین پر تنقید فرماتے نہیں تھکتے۔ صاحبو!!! ساری دنیا کے سیاسی ورکر اپنی پارٹیوں کے لیے قربانیاں دیتے ہیں مگر اپنی پارٹی کی کوتاہیوں سے صَرف نظر نہیں کرتے۔وہ اپنی پارٹیوں کی غلط پالیسیوں پر بھی کھل کے تنقید کرتے ہیں ایسی ہزاروں مثالیں میں آپ کو دنیا کی جمہوریت سے نکال کر دے سکتا ہوں۔مگر اپنے یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ٹھہرا۔ہمارا رہبر ہمیں ہی لوٹتا پھرے تو یہ اسکا حق ہے ہمارے ہی بچوں کوقتل کرے تو یہ اسکا حسن انتظام ہے۔بھوک بانٹے تو یہ اسکی گڈ گورننس کی علامت ہے۔ووٹر کو ذلیل کرنا ہمارے سیاستدان کی اولین ترجیح اور پہلی خواہش ہوتی ہے اور خوشی خوشی ذلیل ہونا ہمارے ووٹر کا رومانس۔ مگر سیاسی پارٹیوں کے پنڈت اور پروہت دن رات ہمارے ذہنوں میں ان سیاسی شخصیات کے بت سجانے میں مصروف کار ہیں۔ اگر آج سے پاکستانی قوم ان سیاسی مذہبی اور مسلکی شخصیات کو اپنے جیسے انسان سمجھنا شروع کردے تو یہ سومنات کے بت لات ومنات کی شبیہیں کچرا کنڈیوں پر اوندھے پڑے نظر آئیں مگر صاحب اس کے لیے عقل سلیم کی ضرورت ہے تحقیق کی ضرورت ہے قرآنی  حکم کے مطابق تدبر غور وفکر کی ضرورت ہے۔
چلیں جہاں سے بات شروع ہوئی  تھی واپس وہیں چلتے ہیں کہ ہم مسلمان ہو کر بت پرست کیسے بنے۔صرف شخصیت پرستی کی وجہ سے۔اسلام نے شخصیت پرستی پر ایسی کاری ضرب لگائی  تھی کہ کہیں کسی کو کسی بھی حال میں ناگزیر نا بنایا تھا حتیٰ کہ مالک کائنات نے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ و علیہ وسلم کے لیے بھی مسلمانوں کی جماعت کو ببانگ دہل فرمادیا کہ وَمَا مُحَمَّد اِلَّا رَسُوْل قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُولُ، اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ اَنْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَابِکُمْ،وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّاﷲَ شَئْیًا، وَسَیَجْزِی اﷲُ الشّٰکِرِیْنَ (ال عمران) اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول آچکے ہیں اگر یہ فوت ہوجائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو شخص الٹا پھر جائے گا وہ اﷲ کا کچھ نقصان نہیں کرے گا اور اﷲ تعالیٰ جلد ہی بدلہ دے گاشکر کرنے والوں کو ۔ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ تمام رسولوں نے وفات پائی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پائیں گے رسولوں کے وفات پانے سے نہ ان کی شان میں کوئی کمی آتی ہے اور نہ دین اسلام کو کوئی فرق پڑتا ہے۔
اس کے بعد کے چند واقعات اور بھی ایسے ہیں جہاں شخصیت پرستی کی نفی کی گئی ہے۔حضرت خالد بن ولیدؓ کا عمر ؓ کے ہاتھوں عین جنگ کے دوران ہٹایا جانا شخصیت پرستی کی نفی ہی تھی۔ تو اے میرے پاکستانی بھائیو۔۔۔۔۔۔دلوں میں بسی شخصیات کے بت توڑو اور تحقیق وتدبر کی طرف آؤ۔ آپ اپنی معزز ہستیوں سے عقیدت رکھو ان سے پیار کرو مگر ان کو معصوم عن الخطاء نہ سمجھو نہ ثابت کرو کہ یہ صفت صرف انبیاء کرام علیہ سلام کے لیے مخصوص ہے۔باقی تمام بشر غلطی بھی کرتے ہیں کمی کوتاہی اور گناہ بھی انسان سے ہی سرزد ہوتے ہیں۔ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں، لا الہٰ الا اللہ!

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply