پاکستان میں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کا منظر/ گل بخشالوی

مسلم لیگ ن کی حکمرانی میں لاہور ایک بار پھر میدان جنگ بن گیا ، لاہور میں جوکچھ ہوا، لاہوریوں کے ساتھ دنیا نے دیکھا ، لاہوریوں کے ساتھ وہ ہی کچھ ہوا جو فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے علم براداروں کے ساتھ ہوتا آ رہا ہے ، لیکن فلسطینیوں پر یہودی اور کشمیر یوں پر تو ہندو ظلم کے پہاڑ تو ڑ رہے ہیں جب کہ پاکستان میں پاکستانی پولیس پاکستانی مسلمانوں پر ظلم و بر بریت کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ، لیکن یہ ہم پاکستانیوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ، غاصب جنرل حکمران جنرل ضیاءالحق کے دور حکمرانی میں بھٹو کے دور ِ پابند ِ سلاسل اور ماورائے عدالت قتل کے بعدایسا ظلم اور جبر دنیا نے ہم پاکستانیوں  پہ ہوتا ہوا دیکھا تھا اور اس ظلم و بربریت کی انتہا اس کے لے پالک نواز شریف کے ادوار حکمرانی میں دنیانے دیکھا اور دیکھ رہی ہے ، میں نے وہ لہو لہا ن منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اس لئے کہ میں بھی لہولہان تھا ، ایک گولی میرے حصے میں بھی آئی تھی لیکن زندگی نے آج کا ظلم و جبر دیکھنے کے لئے زندہ رکھا ،میں اُس وقت بھی پاکستانی تھا آج بھی پاکستانی ہوں ، لیکن ایک فرق ہے ، اس وقت پیپلزپارٹی مظلوم تھی ، ضیاءالحق اور نواز شریف ظالم تھے آ ج وہ مظلوم اور ظالم ایک ہوکر دور ضیاءالحق اور ماڈل ٹاؤن لاہور کی تاریخ دہرا رہے ہیں ، آج تحریک انصاف مظلوم ہے، عوام وہ ہی ہیں جو کل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے گیت گا رہے تھے ۔آج دونوں کی چوری اور نورا کشتی کے خلاف تحریک انصاف کے ساتھ ہیں ۔

تحریک انصاف کی ریلی کے شرکا ءکے ساتھ جو ہوا ، وہ ظلم و جبر کی انتہاءہے ایک نوجوان کو پولیس نے لاٹھیاں مار مار کر شہید کر دیا، کئی ایک لہو لہا ن ہو گئے ، بیگم نصرت بھٹو کے سر پر لاٹھیاں برسانے والوں نے آج بھی لاہور کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو معاف نہیں کیا ، خواتین کی بے حرمتی کی گئی جو کچھ ہوا سرِ عام ہوا، اس لئے کہ قانون دفن ہو چکا ہے ، غلط ہے کہ عدل گونگا بہرا اور اندھا ہے وہ سب کچھ د یکھ اور سن رہا ہے لیکن ضمیر مر چکا ہے، آ زاد دیس کا نا م لینے والے دیسیوں کا خون ہو رہا ہے ،نوجوان علی بلال کو سر عام اسی کے پاکستانی بھائی پولیس والوں نے شہید کردیا ، لیکن یہ پولیس والے نہیں تھے ، یہ پولیس کی وردی میں تنخواہ دار گلو بٹ تھے ، یقین نہیں آتا کہ اس قدر ظلم پنجاب پولیس کر سکتی ہے پولیس نے علی بلال شہید کے والد کی درخوا ست پر اپنے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا بلکہ اپنے خلاف اپنی مرضی کا مقدمہ درج کیا ، علی بلال کے والد بخوبی جانتے ہیں کہ اگر سابق وزیر اعظم کی درخو است پر ان پر ہونے والے حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا تھا تو اس کی درخواست پر مقدمہ درج کیسے ہو سکتا ہے۔

کہاں ہے تحریک لبیک اور کہاں ہے جماعت اسلامی ، جو فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے خلاف ریلیاں نکالتے ہیں ۔ کیا ان کو ریاست پاکستان میں اپنے مسلمان بھائی بہنوں ماؤں بیٹیوں پر ہوتا تشدد نظر نہیں آیا ، کیا وہ اندھے اور بہرے ہیں کیا وہ گونگے ہو چکے ہیں ، آج قوم جان گئی ہے کہ ان کی احتجاجی ریلیاں نمائشی ہوا کرتی ہیں اگر ان کو مسلمان بھائیوں پر ظلم و جبر کا درد محسوس ہوتا تو سڑکوں پر آتے ، لیکن یہ لوگ نہیں آئیں گے، اس لئے کہ یہ لوگ سیاسی فقیر ہیں۔

عمران خان کا یہ کہنا کسی حد تک د رست ہے کہ مجھ پر پہلے بھی حملہ ہوا اور دوبارہ حملہ کروایا جائے گا، اس لئے کہ عمران خان جھکنے اور بکنے والے نہیں ، ناجائز حکومت اسے جھکنے پر مجبور کروانے کے ہر حربے میں ناکامی کے بعد ان کے پاس اب عمران خان کو قتل کرنے کے سوا کوئی چار ہ نہیں اور عمران خان کو بھی یہ غلط فہمی ہے کہ اس کے قتل کے بعد پاکستان میں ترکی جیسا کوئی زلزلہ آئے گا  ۔ نوابزادہ لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک شہید کے اضافے کے سوا کچھ بھی نہیں ہو گا، عمران خان کا کہنا ہے کہ ’میں چیف جسٹس کو خط لکھوں گا کہ نواز شریف کی بیماری پر ہماری حکومت میں وفاقی حکومت کو خط لکھا گیاکہ انھیں کچھ ہوا تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔ میں پوچھوں گا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو کون ذمہ دار ہو گا؟ مجھے کون تحفظ دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

لاہور میں بدترین ریاستی بد معاشی کے بعد بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہو ئے عمران خان نے کہا کہ میں صرف اور صرف ملک میں انتخابات کا انعقاد چاہتا ہوں اور اس کے لیے میں کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہوں ، جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں تو اسے بیساکھیاں درکار نہیں ہوتیں۔ میں سیاسی آدمی ہوں، میں سب سے بات کروں گا ، سوائے چوروں کے۔‘ میں نے نہ تو آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی ،نہ شہباز شریف کو۔ میرا خیال تھا کہ نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں۔ ہم پر جنرل باجوہ کے دور میں کیسز بنے۔ لیکن پہلے کبھی سینئر لوگوں پر اتنا حراستی تشدد نہیں ہوا۔“’یہ انتشار کے بہانے الیکشن سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ نگران حکومت کا کام ہوتا ہے انتخابات کروانا۔ یہ کیسے روک سکتے ہیں۔ اگر الیکشن کروانا ہیں تو انتخابی مہم اور ریلی کے بغیر الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟‘یہ لوگ چاہتے ہیں میں ڈس کوالیفائی ہوں جاوں یا جیل چلا جاؤں یہ کپتان کے بغیر میچ کھیلنا چاہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply