اب بیدار ہوجائیں /عبدالرؤف

کہتے ہیں کہ ہجوم کا کوئی سربراہ نہیں ہوتا وہ اندھے بہروں کی طرح کسی پر بھی چڑھ دوڑتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھ پاتے کہ زد میں آنے والا شخص کون ہے۔ وہ اک بپھرا ہوا ہجوم ہوتا ہے۔ جسے ریاست بھی قابو نہیں کرسکتی۔
ہجوم کب اکٹھا ہوتا ہے؟ جب پانی سر سے گزر جائے معاملات ہاتھ سے نکل جائیں ۔ تسلی تشفی بے سود ہو جائے تو پھر ہجوم سر اٹھاتا ہے۔ جس کا سربراہ نہیں ہوتا ۔ اس کا ولی وارث کوئی نہیں ہوتا اور نہ ہی ہجوم کی کوئی منزل ہوتی ہے۔ یہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پیروں تلے روند ڈالتے ہیں۔ اس وقت رشتے ناطے سب بے سود۔

اس وقت ملک پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ عوام بالکل تیار کھڑی ہے اس ظلم کے نظام کے خلاف ۔ بس کوئی اشارہ دینے والا ہو۔ ستر سالہ ظلم کا نظام اب ڈھے جانے کو ہے اب مزید یہ تماشے قوم برداشت نہیں کرسکتی۔

آخر قوم کب تک قربانیاں دے گی؟ قربانیاں انسان اس وقت دیتا ہے جب اس کو منزل کا بھی یقین ہو کہ میں نہیں تو میری آنے والی نسلوں کو اس قربانی کا پھل ضرور ملے گا۔ لیکن افسوس یہاں تو قربانیوں کے ڈھیر لگ گئے ، مگر صلہ کچھ نہیں۔

ہاں! یہ ضرور ہُوا کہ عوام کی قربانیوں کا فائدہ ہمیں دلاسے دینے والا لے اُڑا۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم اس جدید دور میں بھی بیوقوف بن رہے ہیں۔ ہمارے حقوق ہماری آنکھوں کے سامنے پامال ہورہے ہیں، اور ہم تماش بین بن کر محظوظ ہورہے ہیں۔

کچھ سر پھرے نوجوانوں کا اکثر سوال ہوتا ہے کہ ہم ایسے بےحس کیوں ہیں؟ ہم اپنے حقوق کے طالب کیوں نہیں؟ ہم نوجوانوں کو جہاں درسگاہوں ،تجربہ گاہوں میں ہونا چاہیے تھا۔ وہاں آج کا نوجوان چوک چوراہوں ، فٹ پاتھوں، اور کچرے  کے ڈھیر پر  ملنگ بنے بیٹھے  نشے میں دھت اپنی جوانی   لُٹا رہے ہیں۔

جو صحیح  سلامت ہیں وہ مزدور کی شکل میں، ٹھیلا چلانے والے، مل فیکٹری میں مشقت کرنے والے۔ یا پھر اکثریت ہاتھوں میں ڈگریاں لیے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے صبح شام دھکے کھاتے نوجوان ، جو تھک ہار کر یا تو مزدوری شروع کر دیتے ہیں یا پھر اس زندگی سے ہی کنارا کر لیتے ہیں۔

اس وقت نوجوان طبقہ سوشل میڈیا پر کافی ایکٹیو نظر آتا ہے لیکن وہ شہسوار ہے صرف سوشل میڈیا تک۔ اپنی جماعتوں کا پرچار کرنے تک، گالم گلوچ   تک۔ ۔یہ وہ غازی ہیں جو سَر تو کچھ نہیں کرتے لیکن پہلو میں اک ہنگامہ سا بپا رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر نوجوان طبقہ چاھے تو چائے کے طوفان سے نکل کر سمندر میں طوفان بپا کرسکتے ہیں، لیکن انھیں واٹس ایپ ، فیس بک ، ٹوئٹر ، ٹک ٹاک سے فرصت ملے تو وہ اپنے حقوق کا بھی کچھ پرچار کرے۔
پہلے پہل اک محاورہ استعمال ہوتا تھا کہ ساری کشتیاں جلا کر نکلے ہیں۔ اب تو وہ کشتیاں بھی جل سڑ گئیں  سب۔ اب اور کس کا انتظار۔ موسم اور حالات کا رخ دیکھ کر اگر آپ نے فیصلے کرنے ہیں تو پھر انتظار ہی کرتے رہیں موسم اور حالات کا۔

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply