• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قصہ راسروچکا ( قسطوں پہ ) نیا ہینڈ سیٹ خریدنے کا۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

قصہ راسروچکا ( قسطوں پہ ) نیا ہینڈ سیٹ خریدنے کا۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں نے روس میں بھی بینک میں رکھے پیسوں پر سود نہیں لیا کبھی اور نہ ہی کبھی دیا کیونکہ کریڈٹ پہ کبھی کچھ لیا ہی نہیں۔
ایک روز کہا نیا ہینڈ سیٹ لینا چاہیے یہ پرانا ہو گیا تو اہلیہ نے کہا کہ کریڈٹ پہ لے لیں۔ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے پنشن کارڈ سے ادائیگی کر دیا کر دیا کروں گی۔
اشتہارات میں تو یہی لکھا ہوتا ہے کہ اتنے روبل ماہانہ پہ بنا کمیشن کے بارہ ماہ کا ادھار، جب دی گئی رقم کو بارہ سے ضرب دیں تو اتنا ہی بنتا ہے جتنی قیمت لکھی ہوتی ہے جیسے دو ہزار روبل ماہوار، قیمت چوبیس ہزار۔
پھر پرسوں فون ہی گم ہو گیا۔ ایک روز تو اس امید میں کٹا کہ شاید مل جائے، جس دکان پہ آخری بار گیا تھا، وہاں سے جا کے پوچھا اور تو اور چونکہ صبح کی سیر کے دوران فون لاپتہ ہوا تھا، حسب معمول سات کلومیٹر جس میں تین کلومیٹر کی ہلکی دوڑ بھی شامل ہوتی ہے، سے تھکا ہوا تھا مگر پھر ایک بار چار پانچ کلومیٹر چل کے انہیں راستوں پر نگاہ دوڑائی جہاں سے گذرا تھا۔
کل سیر کے بعد اس کمپنی کے گھر کے قریب دفتر میں گیا، موجود بی بی کو بتایا کہ میرا نمبر بیس سال سے ایک ہی ہے۔ فون بمعہ سم گم گیا ہے، کیا مجھے اسی نمبر کی سم مل سکتی ہے۔ اس نے جھٹ پٹ سم دے دی اور کہا، فون دیں میں لگا دیتی ہوں۔۔ بتایا فون تو نہیں ہے۔ بولی ہم سے خرید لیں، بتایا ابھی تو جیب میں رقم نہیں۔ کہنے لگی میں قسطوں پہ دے سکتی ہوں۔ میں نے کہا اچھا دے دیں۔
چند ماہ پہلے اہلیہ نے بیٹے کے لیے اسی طرح فون لیا تھا جس کی قیمت تئیس ہزار روبل تھی اور اس نے بتایا تھا کہ پینتیس ہزار روبل دینے پڑے یعنی پاکستانی پچاس ہزار روپوں کی جگہ پچھتر ہزار روپے یعنی پچاس فیصد زیادہ۔
سوچا کارڈ سے زیادہ پیسے دینے کی کیا ضرورت ہے چنانچہ پوچھا کہ آپ کے خیال میں سستا اور اچھا سیٹ کونسا ہے۔ اس نے ریڈمی نائن اے بتایا۔ پوچھا کہ ماہوار کتنا دینا ہوگا کہنے لگی یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کو کونسا بینک کریڈٹ دیتا ہے۔ اندازہ ہے کہ ہر ماہ گیارہ بارہ سو یعنی نو ہزار کی جگہ تیرہ ہزار۔ جی نہیں بندھا۔ کہا پھر آوں گا،
بیوی نے کہا کہ یہاں انتخاب کم ہے ، بیٹے کے ساتھ شاپنگ مال سے جا کے لو۔ وہاں اس دکان میں گئے جہاں سے انہوں نے پہلے لیا تھا، وہاں موجود آرمینیائی سیلز بوائے نے اوپو کی سفارش کی اور میری جانب دیکھ کے کہا، داد کے لیے کافی ہوگا ( تھا نہ مشرقی، داد بنا لیا )،
جب قسطوں کی بات کی تو بولا چودہ ہزار بھی کریڈٹ پہ لو گے؟ ایک بار پھر دادا کہا تو میں بولا کہ تم کیوں سمجھتے ہو دادا کو فون ہینڈل کرنا تم سے کم آتا ہے۔ جھینپ گیا، اس کے ہمکار نے حساب لگا کے بتایا کہ ایک ہزار نو سو ماہانہ یعنی تیرہ ہزار ٓٹھ سو کی جگہ اکیس ہزار آٹھ سو۔ دل نہیں بندھا،
پھر سے اپنی سم والی کمپنی کے چھوٹے آفس گیا۔ پہلے ہی ایک دو کلائینٹ موجود تھے، بہر حال مارگریتا گیئر نے کریڈٹ کا بندوبست کیا، کمپنی کے ہی بینک سے فون آیا کہ آپ کا کریڈٹ تیرہ ہزار آٹھ سو روبل منظور ہو گیا ہے، ہر ماہ ایک ہزار دو سو ایک دینے ہونگے۔
اسکے بعد موصوفہ نے کہا کہ ماسک اتار دیں ، اپنے پاسپورٹ ( شناختی کارڈ ) کو کھول کے چہرے کے ایک طرف رکھ کے کیمرے میں دیکھیں۔ جیسے پولیس مجرم کا فوٹو لیتی ہے۔ یہی توہین آمیز عمل کریڈٹ پے انگ کارڈ کے ساتھ بھی دہرایا گیا۔
اتنا طویل پراسیس ، کھڑے کھڑے ٹانگیں اکڑ گئیں۔ اوپر سے وہ لڑکی بولتی بہت تھی۔ ماسک بھی ناک سے نیچے تھا، جب مجھے ماسک اتارنے کو کہا تو میں نے کہا، آپ تو ماسک درست پہنیں، بولی میری سانس بند ہوتی ہے۔ اچھا ہے میں کورونا میں مبتلا ہو جاوں بجائے ماسک اوڑھنے کے۔
میں نے یہ سب تجربہ کے طور پر کیا، آرام سے نو ہزار ( اکیس ہزار روہے ) اسے پکڑاتا اور بس مگر آخر تجربہ نہ کرتا تو مجھے کریڈٹ دینے میں دھوکہ دیے جانے کا کیسے پتہ چلتا کہ ہم کمیشن نہیں لیتے مگر پچاس فیصد سود لے لیتے ہیں بارہ ماہ میں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply