کَلا(فلم ریویو)-ثنا اللہ خان احسن

آئیے چلتے ہیں 1930 کے برٹش کلونیل دور میں!

اس فلم پر تبصرے سے پہلے میں اتنا بتادوں کہ یہ فلم ان باذوق دھیمے مزاج لوگوں کے لئے ہے جو اعلیٰ  موسیقی، عمدہ پینٹنگز اور انسانی احساسات و جذبات کو سمجھتے ہیں۔ جو کسی ہدایتکار کی کہانی پر گرفت، سینماٹوگرافی، سیٹ ڈیزائن اور فلم میں دکھائے گئے ٹائم پیریڈ کے مطابق ایسا ماحول تخلیق کرنے پر مہارت رکھتا ہے کہ آپ اس فلم کے ماحول میں کھو کر خود کو اُسی دور میں پاتے ہیں۔ اس فلم کا صحیح لطف اُٹھانے کے لئے دماغی فرصت، رات کی خاموشی اور تنہائی  بڑی ضروری ہے۔

یہ فلم ان افراد کے لئے ایک انتہائی  خوشگوار تجربہ ہوگا جن کو 1930 کا برٹش کلونیل دور پسند ہے۔ آپ اس فلم کو دیکھتے ہوئے خود کو 1930 کے انڈیا میں محسوس کریں گے۔ ایک بہت عام سی کہانی کو ہدایتکار نے اپنی تمام تر فنّی مہارت سے ایک فن پارہ بنا دیا ہے۔

خوبصورتی سے ڈیزائن کی گئی ، بہت زیادہ اسٹائلائزڈ “کلا “ ایک میوزک تھیم پر مبنی فلم ہے۔ ہدایتکار انویتا دت کے اسکرین پلے سے لے کر سنیماٹوگرافی، پروڈکشن ڈیزائن، ساؤنڈ اسکیپ اور ایڈیٹنگ سے، یہ فلم تھیم اور نپے تلے نرم دھیمے ڈائیلاگز کے لحاظ سے آپ کی حسِ ذوق کو ایک عجیب تسکین فراہم کرتی ہے۔ اس فلم کا ایک ایک فریم اور سین کسی کلاسیکل پینٹنگ جیسا ہے۔

اس فلم کی ڈائریکٹر انویتا دت ایک انتہائی  ذہین اور قابل ہدایتکار ہے۔ اس کی ہر فلم ایک سگنیچر فلم ہے۔ آپ اس کی جو بھی فلم دیکھئے ۔ اگر آپ کو ڈائریکٹر کے نام کا علم نہ بھی ہو تب بھی آپ سینماٹو گرافی، ایڈیٹنگ، ڈائیلاگ اور ایک عجیب سی پُراسراریت دیکھ کر فوراً  جان جاتے ہیں کہ اس کی ڈائریکٹر انویتا دت ہے۔ بلا مبالغہ یہ ڈائریکٹر ہر شعبے میں ہالی ووڈ کو بھی مات دیتی نظر آتی ہے۔

کلا (ترپتی ڈمری) ایک مشہور گائیک و موسیقار گھرانے سے ہے اور اس کی آواز بہت اچھی ہے۔ یہ ایک انتہائی  خوشحال اور آسودہ ترین خاندان ہے جن کی زندگی میں نوابوں والی ہر آسائش شامل ہے۔ کلا کی گلوکارہ ماں اس کی گائیکی کی تربیت کے معاملے میں انتہائی  سخت ہے اور کلا کی گائیکی میں ذرا سی بھی غلطی برداشت نہیں کرتی ہے۔ کلا اپنی سی بھرپور کوشش کرتی ہے لیکن اس کی ماں اس کے فن سے مطمئن نہیں ہوتی جبکہ دوسرے سننے والے کلا کی آواز اور گائیکی کے انتہائی  معترف ہیں۔ کلا چاہتی ہے کہ اس کی ماں اس کو سراہے لیکن کلا کی ماں اس کی حوصلہ افزائی  نہیں کرتی۔ اسی دوران کلا کی ماں (سوستیکا مکھرجی) کو جگن (بابل خان) نامی ایک غریب نوجوان گلوکار کا پتہ چلتا ہے، جو شوق سے گاتا ہے اور موسیقی کے لیے جیتا مرتا ہے۔ کلا کی ماں اسے اپنے گھر لےآتی ہے اور اسے اپنا بیٹا بنا لیتی ہے حالانکہ وہ نیچ ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ کلا اپنی ماں کے اس انداز اور مسترد ہونے کی وجہ سے مایوسی اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایک مشہور فلمی پروڈیوسر جو کہ کلا سے اپنی فلم کے گیتوں کی ریکارڈنگ کروانے کے لئے آیا تھا لیکن کلا کی ماں اس پروڈیوسر سے جگن کے گیتوں کی ریکارڈنگ کی فرمائش کرتی ہے۔ پروڈیوسر جگن کے گیتوں کی ریکارڈنگ کے لئے تیار ہوجاتا ہے لیکن جگن کو اپنے ساتھ کلکتہ لے جانے سے صرف ایک دن پہلے جگن بیمار پڑ گیا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اب کبھی نہیں گاسکے گا۔ جگن کی حالت دیکھ کر پروڈیوسر کلا کی آواز میں گیتوں کی ریکارڈنگ کے لئے تیار ہو جاتا ہے جبکہ کلا کی ماں جگن کی اچانک بیماری پر سخت افسردہ ہے۔ جگن اپنی بیماری کی وجہ سے مایوس ہوکر شدید برفباری کے دوران ایک درخت سے لٹک کر خودکشی کرلیتا ہے۔ کلا درخت سے لٹکی جگن کی لاش دیکھ کر سخت حراساں ہوجاتی ہے۔ کلا کی ماں جگن کو موت پر انتہائی  غمزدہ ہوجاتی ہے۔ جب فلم پروڈیوسر کلا کی ریکارڈنگ کرتا ہے تو اس کی ماں سخت ناراض ہوکر کلا کو گھر سے باہر نکال دیتی ہے۔ کلا کلکتہ جاکر پروڈیوسر کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ اس دوران ایک گانے کی ریکارڈنگ کے دوران پروڈیوسر کلا کی گائیکی سے مطمئن نہیں ہوتا۔ اسٹوڈیو میں ریکارڈنگ چل رہی ہے اور کلا کو جو گیت گانا ہے اس کے بول ہیں۔
“کوئی  کیسے انہیں سمجھائے”
پے درپے گیارہ ناکام ٹیکس کے بعد پروڈیوسر غصے میں کلا کو بریک لینے کا کہتا ہے۔ اسٹوڈیو میں اس گیت کی ریکارڈنگ کا یہ سین اس فلم کی جان ہے۔ اس گیت کے بیک گراؤنڈ میوزک نے اس فلم کو انتہائی  اثر انگیز بنادیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ یہ گیت ایک بار سننے کے بعد بار بار سننا پسند کریں گے۔ ہدایت کار نے اس گانے کی دھن اور آرکسٹرا وہی سن تیس کی دھائی  والا دھیما اور مدھر جبکہ اس گیت کے لئے گلوکارہ کا انتخاب بہت چھان بین کر کیا ہے۔ یہ گیت ایک نسبتاً  نئی  اور غیر معروف گلوکارہ سریشا بھگوتولا
‏ (Sireesha Bhagavatula )نے گایا ہے لیکن اس لڑکی کے گلے میں واقعی کوئل بولتی ہے۔

فلم پروڈیوسر اب اس بے گھر لڑکی کا جنسی استحصال کرنے لگتا ہے۔ شہرت اور دولت تو آتی ہے لیکن کلا زیادہ سے زیادہ افسردہ اور الگ تھلگ رہنے لگتی ہے کیونکہ جگن کا آسیب اس کو ہر جگہ پریشان کرتا ہے۔ کلا جُگن کے بھوت کی وجہ سے بہت ڈسٹرب رہتی ہے۔ میوزک سیشن ریکارڈ کرنے سے پہلے روتی رہتی ہے اور اس کو فریب نظر (Hallucination ) کا عارضہ ہوجاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جگن کا آسیب کلا کو کیوں پریشان کررہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ کلا کو ہر کامیابی پر پریشان کرنے پہنچ جاتا ہے؟
ان سوالات کے جوابات تو آپ کو فلم دیکھ کر ہی ملیں گے۔

اس فلم کی اصل خوبی اس کی سینماٹوگرافی اور 1930 کے دور کا زمانہ اس قدر خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے کہ یہ فلم بالی ووڈ کے بجائے ہالی ووڈ کی لگتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ انگلش زبان کی فلم ہندی زبان میں ڈب کی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھنے والوں کے لئے اس فلم سے تین بڑے سبق۔
1) کبھی بھی غلط کام کر کے دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو خود سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔
2) مکافات عمل آپ کی زندگی کے ایک موڑ پر بالآخر آپکے سامنے ہونگے۔
3) ہر رشتے میں خامیاں ہوتی ہیں، خاص کر خون کے رشتوں کا دیاگیا زہر ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply