کافر دال اور مرتد چاول۔۔علی اختر

آج تک آپ نے پاکستان کی قومی زبان ، قومی رنگ ، قومی پرندہ ، قومی کھیل وغیرہ کے بارے میں سنا ہوگا ۔ کیا کسی نے کبھی غور کیا کہ  ہمارا قومی مضمون کیا ہے ؟ ۔ ۔۔نہیں نا! چلیے آج ہم  آپ کو بتاتے ہیں ۔ ہمارا قومی مضمون”حساب” اور مزید گہرائی  میں جائیں تو حساب کا سبق “تقسیم” ہے ۔ یہ تقسیم ہماری قوم کا پسندیدہ عمل بھی ہے اور قومی مشغلہ بھی ۔

ویسے ہمارا ملک بھی ہندوستان کی تقسیم ہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ۔ ہمارے اجداد نے کہا کہ  ہم الگ مذہب کے ہیں ملک تقسیم کرو ۔ چلیے وہ ہو گیا ۔ اب آپ ایک قوم ہیں ۔ ہم نے کہا نہیں،مسلمانوں کا ملک تو لے لیا لیکن اب ہم اسلام کو تقسیم کریں گے ۔ اب اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، قرآن تو ایک تھا لیکن ہمیں تو تقسیم کے فارمولے پر عمل کرنا تھا ۔ کہ  اس کے بغیر روٹی ہضم نہ ہوتی تھی ،تو ہم نے قرآنی آیات و احادیث کو تقسیم کیا ،کہ  بھائی  یہ والی آپ کی اور یہ ہماری ،پھر اس بنیاد پر مساجد و مدارس کو تقسیم کیا ۔ چودہ سو سال پہلے ہوئی بنو  ہاشم، بنو امیہ ، بنو عباس کی باہمی چپقلش کو بنیاد بنا کر پہلے تو رانے، کھوسے ، بنگش ، مغل ، محسود تقسیم اور پھر بعد ازاں باقاعدہ دست و گریباں ہو گئے ۔ حجاز و شام کی جنگوں کی بنیاد پر تقسیم ہوئی  تو پنوں عاقل کے نواحی دیہات میں لوگوں نے بات چیت بند کردی ۔ منگنیاں توڑ دی گئیں۔ کوفے و مدینہ میں لکھی گئی  عربی کتابوں کی بنیاد پر “تواڈی پین دی سری والے مناظرے عملا ً وجود میں آئے ۔

داڑھی کی لمبائی ، پاجامے کی اونچائی تک تقسیم ہوئی ۔ “دواد” اور “ضواد” تقسیم ہوئے ۔ حلیم و بریانی تقسیم ہوئی  ، حلوہ اور کھیر جدا کیے گئے ۔ امامہ کے رنگ الگ ہوئے ۔ چپل کے ڈیزائن  تبدیل کیے گئے ۔ قربانی کے موقع پر آ نڈو و خصی کی تقسیم ہوگئی ۔ نعرہ تکبیر، رسالت و حیدری کی تقسیم وجود میں آئی  ۔ جنت و جہنم یہیں دنیا ہی میں تقسیم کیے جانے لگے ۔

اس تقسیم کے لیے ہم ہر حد تک گئے ۔ جھنڈے کے رنگ ، مناروں کے ڈیزائن سبیل، تازیے ، مزارات پر لگنے والی لائٹوں سے شروع ہونے والی یہ تقسیم اس حد تک بڑھی کہ  ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر اُتر آئے ۔ رمضان میں معتکفین تک کو نہ بخشا گیا ۔ ہم اور باریکی میں گئے ۔ ڈاکٹروں کی جانچ کی ،انہیں کافر و مسلمان میں تقسیم کیا ۔ پتا لگایا کہ  کون سے ڈاکٹر صاحب نے پیراسٹامول کی گولی اور وارن کے انجکشن کے ذریے کفر پھیلایا ہے ۔ معاشرے کو ان سے صاف کیا گیا ۔ استادوں کی جانچ کی ۔ صفائی  شروع ہوئی  میرے ایک استاد “سر عمران زیدی” کو بھی ان کی مہران کار میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ شاید ریسرچ میتھڈ پڑھاتے پڑھاتے عقیدہ خراب کر دیتے ہوں ،وللہ اعلم ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب جبکہ حد یہ ہے کہ فقیروں نے بھی گلیاں تقسیم کرلی ہیں کہ  کہاں اللہ کے نام پر مانگنا ہے ، کہاں رسول کا واسطہ دینا اور کہاں مولا علی کے نام پر سوال کرنا ہے ۔ جہاں عاملوں کو موکل بھی الگ الگ پاجامے پہنتے ہوں ،وہاں کرونا وائرس کا بھی شیعہ سنی ، وہابی وغیرہ ہونا قابل حیرت بالکل نہیں ۔ ہاں کل ایک عجیب وڈیو دیکھی جس میں ایک مولوی صاحب وضاحت فرماتے دکھائی  دیے کہ  راشن لیتے وقت انہیں علم نہ تھا کہ  یہ کون لوگ ہیں ۔ وہ تو جب دال چاول میں پورک کی بو محسوس ہوئی اور روح افزا چکھنے پر ریڈ وائن کا سا احساس ہوا تو مولوی صاحب نے فوراً  علماء حق سے رجوع فرمایا ۔ خیر انہوں نے تو توبہ فرمالی پتا نہیں ہم کب توبہ کریں گے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply