ڈایوجینز آف سینوپے (آج کا ترکیہ)-مبشر حسن

ڈایوجینز آف سینوپے (آج کا ترکیہ)
ڈایوجینز کی پیدائش ہوئی 412 قبل مسیح (اندازاً) اور
وفات ہوئی 323 قبل مسیح (اندازاً) ملک: یونان ( ترکیہ )
اہم کام: ’’ریاست‘‘ ( معدوم )فلسفہ کَلبیت

یونانی فلسفی ڈایوجینز کو ایک قدیم مکتبہ فکر کلبیت (Cynicism) کا بانی تسلیم کیا جا تا ہے ۔ وہ سینوپے ( ترکیہ ) میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ Icesias بینک کار تھا اور عوامی سَکے کی تحقیر کرنے کے جرم میں ملک چھوڑ نے پر مجبور ہُوا۔ ایک اور روایت کے مطابق یہ الزام باپ بیٹا دونوں پر لگا اور باپ کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا؛ ڈایوجنیز بچ کر ایتھنز جا پہنچا۔ یہاں وہ اینٹی ستھینز کا شاگرد اور دوست بن گیا جو کلبوں ( کلیت پسندوں ) کا سربراہ تھا۔ اینٹی ستھینز نے شروع میں اسے شاگردی میں لینے اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ ایک مرتبہ اسے چھری سے مارا بھی۔ ڈایوجینز نے یہ سب کچھ خندہ پیشانی سے جھیلا اور کہا‘’ اینٹی ستھینز مجھے جتنا چاہے مارلو لیکن تمہیں بھی کوئی اتنی سخت چھری نہیں مل سکے گی کہ جو مجھے تم سے دور کر دے بشرطیکہ تم سننے کے قابل باتیں کہتے رہو ۔‘‘اینٹی ستھینز اس جواب سے اتنا خوش ہُوا کہ فوراً اسے اپنے شاگردوں میں شامل کر لیا۔

ڈایوجینز نے اپنے استاد کے اصولوں اور کردار کو مکمل طور پر اپنالیا۔ کسی بھی اور مقصد کومستردکرتے ہوئے اس نے مال و دولت اور اعزازات کو حقیر جانا اور عیش پرستی کے خلاف وعظ دے کر شہرت حاصل کی۔ وہ کھردرے کپڑے کا جبہ پہنتا ایک تھیلا اور عصا ساتھ رکھتا اور گھروں کے پیش دالان اور عوامی مقامات پر وقت گزارتا تھا۔ وہ لوگوں کا دیا ہوا کھانا کھا کر پیٹ بھرا کرتا تھا۔ ان عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ ہندوستان کے بودھ بھکشوؤں کا پیروکار اور دسویں گیارہویں صدی عیسوی کے مسلمان صوفیوں کا پیش رو معلوم ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ اس نے ایک دوست سے کہا کہ اسے رہنے کے لیے ایک کمرہ لے دے۔ جب تاخیر ہوئی تو وہ Metroum میں ایک بڑے سے ٹب (Pithos) میں رہنے لگا ۔ غالباً محض مستقل جائے سکونت سے اس کی نفرت کا ہی اظہار تھا جو وینل نے اس مشہور’’ ٹب‘‘ کی تحسین کی لوسیان نے اس کا مضحکہ اُڑایا۔ سینیکا کا بھی ٹب کا ذکر کرتا ہے ۔ لیکن ڈایوجینز کا ذکر کر نے والے دیگر قدیم اہل قلم اس حوالے سے کچھ نہیں کہتے۔

تا ہم اس بات پر شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ ڈایوجینز نے خودضبطی اور تزکیہ نفس پر بڑی سختی سے عمل کیا ۔۔وہ شدید گرمی اور شدید سردی میں بھی بے پروائی کے ساتھ پھرتا اور سادہ ترین
خوراک مانگ کر کھا تا۔ بڑھاپے میں ایجینا جاتے ہوئے بحری قزاقوں نے اسے قید کر لیا اور کریٹ لے گئے ؛ وہاں اسے عوامی منڈی میں فروخت کے لیے رکھا گیا۔ نیلامی کر نے والے نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کر سکتا ہے؟ اس نے جواب دیا‘ ’’ میں انسانوں پر حکومت کر سکتا ہوں۔ مجھے ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرو جو ایک آقا کا خواہشمند ہو۔‘‘ قریب ہی موجود ایک امیر کبیر کورنتھی Xeniades نے یہ گفتگوسن لی اور ڈایوجینز کے کھرے جواب سے متاثر ہوکر اسے خرید لیا۔ Xeniades نے کورنتھ پہنچ کر اسے آزاد کر دیا اور اپنے بچوں کو پڑھانے اور گھریلو امور کی نگرانی کے کام پر لگا دیا۔ ڈایوجینز نے اس قدر سمجھ داری اور وفاداری کا مظاہرہ کیا کہ Xeniades کہا کرتا تھا:’’دیوتاؤں نے ایک جینیئس کو میرے گھر بھیج دیا ہے ۔‘کورنتھ میں قیام کے دوران ڈایوجینز اور سکندراعظم کی ایک مختصر مگر نہایت دلچسپ ملاقات بہت مشہور ہوئی۔ پلوٹارک ہمیں بتا تا ہے کہ سکندر اہل فارس کے خلاف یونانیوں کی فوج کا سالار بننے پر ( کورنتھ میں ) تمام لوگوں سے مبارکباد وصول کر رہا تھا۔ ڈایوجینز کے سوا سب اسے مبارک دینے آئے سکندر اسے جانتا تھا۔ وہ اس قد رنخوت کا مظاہر ہ کر نے والے  سے ملنے کا خواہش مند ہوا۔سکندر ڈایوجینز کو ڈھونڈنے نکلا اور اسے دھوپ میں ایک ٹب کے اندر بیٹھا ہوا پایا۔ اس نے قریب جا کر کہا:’’ میں سکندر اعظم ہوں۔‘‘ ڈایوجینز نے جواب دیا‘ ’’اور میں ہوں دیو جانس کلبی۔‘‘ ( کچھ روایات میں یہ جواب’’ میں ہوں دیو جانس کتا‘‘ کے طور پر آیا ہے ) تب سکندر نے پوچھا: میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟‘‘’ میرے اور سورج کے درمیان میں سے ہٹ جاؤ ۔‘‘ فلسفی نے جواب دیا ۔ کہتے ہیں کہ سکندر اس کی بے نیازی سے اس قدر متاثر ہُوا کہ کہہ اٹھا:”اگر میں سکندر نہ ہوتا تو ڈایوجینز بننے کی خواہش کر تا۔‘‘

یہ قصہ اتنا دلچسپ ہے کہ ڈایوجینز کے متعلق مختصر ترین تحریر میں بھی اسے ضرور شامل کیا جا تا ہے لیکن کچھ شواہد کچھ حد تک اس کا مستند ہونا مشکوک بناتے ہیں۔ اس میں فرض کر لیا گیا ہے کہ ڈایوجینز کورنتھ میں ایک ٹب میں رہتا تھا، جبکہ اس کی اصل جائے رہائش Xeniades کے گھر میں تھی اور اگر وہ واقعی کبھی ٹب میں رہتا تھا تو وہ ٹب کورنتھ کے بجائے
ایتھنز میں تھا۔ نیز اس واقعہ کے وقت سکندر کی عمر بمشکل 22 برس تھی اور وہ خو دکو’’ سکندراعظم‘‘ کہنے کے قابل نہیں ہُوا تھا۔ یہ خطاب اسے فارس اور ہندوستان میں فتوحات کے بعد ملا اور ’’ سکندر اعظم‘‘ بننے کے بعد وہ واپس یونان نہیں گیا تھا غالباً جب سکندر نے کورنتھ میں یونانیوں کی جنرل اسمبلی منعقد کی تو تبھی اس کی ملاقات بے نیاز ڈایوجینز سے ہوئی ہوگی شاہی شان وشوکت سے فلسفی کی بے پروائی اور کلبی رویے کو ہی اس واقعے کا روپ دے دیا گیا۔

بہر حال اس مکالمےکو علامتی روپ میں ہی دیکھنا بہتر ہوگا ڈایوجینز کی زندگی ( جوتمثیلی واقعات کے طور پر ہمیں معلوم ہے ) اس کے نظریات اور خیالات کی نمائندہ ہے۔ اس کے نزدیک سادہ زندگی محض عیش سے پر ہیز کرنا ہی نہیں بلکہ قوانین اور روایتی‘‘ معاشروں کی ’’ روایات‘‘ کو نظرانداز کرنا بھی تھی۔ اس نے خاندان کو ایک غیر فطری ادارہ سمجھا جسے ختم کر کے مردوں اور عورتوں کو آزادانہ میل جول کی اجازت دی  اور بچوں کی ذمہ داری سب پر ہونی چاہیے۔ اگر چہ خود ڈایوجینز نے نہایت غربت اور در بدری کی زندگی گزاری اور مانگ کر کھا تا رہا، لیکن وہ تمام انسانوں کے لیے یہ انداز حیات تجویز نہیں کرتا۔ وہ تو بس یہ دکھانا چاہتا تھا کہ مسرت اور آزادی بدترین حالات میں بھی ممکن ہے۔ ڈایوجینز نے افلاطون کی اس تعلیم پر تنقید کی کہ اعیان (Ideas) عمومی جوہر ہیں۔

اس نے تہذیب کی تمام کامیابیوں کو مسترد کرتے ہوئے انسانوں کو محض لازمی حیوانی ضروریات تک محدود کر نے پر زور دیا۔ وہ کثرت پرستی اور ہر قسم کے مذہبی عقائد کا بھی مخالف ہے اور انہیں محض انسانی اختراعات سمجھتا ہے۔ ڈایوجینز نے طبقاتی امتیازات پر تنقید اور مرتاضانہ انداز ِ زندگی کی تائید کی۔ اس کے نزدیک زندگی کے پروگرام میں خودانحصاری شامل ہے، یعنی ان سب چیزوں کا مالک ہونا جو مسرت کے لیے ضروری ہیں ۔ اس کا دوسرا اصول بے شرم‘‘ ہونا ہے۔۔۔یعنی سماجی دسا تیرکونظرانداز کرنا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈیلوجینز کی گمشدہ تحریروں میں اس کے مکالمات ڈرامے اور’’ ریاست‘‘ شامل ہیں جو ایک انارکسٹ یوٹوپیا کو بیان کرتی ہے۔ روایت کے مطابق ڈایوجینز اور سکندر کی وفات ایک ہی دن ہوئی۔ وہ عملی دانش کا حامی تھا۔ اس لیے اپنا کوئی علیحدہ فلسفیانہ نظام نہ بنایا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply