زندگی اور رشتے/ڈاکٹر شہزاد افضل

44سال گزرنے کے بعد اب احساس ہُواکہ کوشش تو کروں  اس بات کا سبب تلاش  کرنے کی کہ زندگی میں رشتوں کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟اور دوسرا سوال کہ رشتے اپنی اہمیت کیوں کھو دیتے ہیں ؟

دوسرے سوال کا جواب جاننا زیادہ ضروری تھا میرے لیے،کیونکہ   پرانے اور عزیز رشتے آہستہ آہستہ اپنا اثر اور  تاثیر کھوتے جارہے ہیں ۔انسان کو بہت سارے  رشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی،چند رشتے جو اپنے آپ  جگہ بنا لیتے ہیں آپ کے دل میں،پھر وہ اچانک کیوں اپنی چاشنی کھو دیتے ہیں ؟یہ سوال مجھے اب بہت چبھنے لگا ہے۔

رشتے خون کے ہوں یا دل کے،ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان سے دم گُھٹنے لگتا ہے،وہ بوجھ محسوس ہوتے ہیں ،بہت تنگ کیا اس سوال نے ،بہت ٹٹولا اپنے ذہن اور دل کے دریچوں کو،پھر کچھ جواب ملے۔۔

خود غرضی اور اَنا۔ میں اور میری حاکمیت سب سے پہلے
حسد۔ اپنے ہی پیارے جو سب سے پیارے تھے کبھی مقابلے کی دوڑ کا حصّہ بن گئے
مقابلہ۔ اپنوں ہی سے مقابلہ،حساب کی برابری چاہنا،تم نے یہ کیا تھاتو آج میری باری ہے حساب چکانے کی
احساسِ محرومی۔ شاید یہ اصطلاح غلط ہے،مگر وزن رکھتی ہے،جب کوئی بھی حد سے  عزیز رشتہ دوسروں یا دوسری ترجیحات کو آپ پر فوقیت دے تو محرومی کا احساس ہوتا ہے،جو آہستہ آہستہ غصے میں بدل جاتا ہے۔بہت ممکن ہے کہ آپ کا عزیز نیک نیتی سے ہر تعلق نبھانے کی کوشش کررہا ہو مگر ہماری طلب اور خود غرضی زیادہ فوقیت رکھتی تھی دوسرے کی موجودگی پر۔

بہر حال یہ تو ازلی اُصول رہا ہے،رشتوں کوآزمانا نہیں چاہیے،ہاں بس اگر تھوڑی  کڑواہٹ محسوس ہوتو ذراسا دور رہنا بہت مدد کرتا ہے،سمجھنے اور اپنے آپ کو سمجھانے میں ۔بہت ساری غلطیاں ہم اوپر بیان کیے چند عوامل کی وجہ سے مسلط کرلیتے ہیں ،اور پھر پچھتاتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی ایک سڑک کی طرح ہوتی ہے مگر ایک طرفہ سڑک جو صرف آگے ہی آگے لے کر جاتی ہے،واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ،اور اس پہ چلنے والی ٹریفک رشتے ہوتے ہیں ،کچھ دیر تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور پھر یا تو آپ پیچھے رہ جاتے ہیں یا وہ آگے نکل جاتے ہیں ۔mka

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply