جب میں سوچتا ہوں کہ ماں کی کوکھ کی محفوظ جنت چھوڑ کر، میں اس روشن جہنم کا حصّہ بنا، تو مجھے خود سے گِھن آتی ہے۔
مجھے خود سے گِھن آتی ہے کہ چند لمحاتی خوشیوں کے حصول کے لیے میں نے دوسروں کی اُمیدیں چھینیں۔
مجھے خود سے گِھن آتی ہے کہ خدا کے بنائے اس سیارے پر ایک مختصر سی زندگی کے لئے کیا کیا جتن کرتا رہا ، کیسے مقابلوں کا سامنا کیا اور روشن مستقبل کے لئے خود کو مارتا رہا۔
زیست کے اس مختصر سفر میں خود کو مکمل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایک دن خود کو اتنا مضبوط کرلوں گا کہ کوئی توڑ نہیں سکے گا، مگر آج اپنے کرچی کرچی وجود کو دیکھتا ہوں تو مجھے خود سے گِھن آتی ہے۔
چند خوش آئند لمحوں کی گرفت سے خود کو چھڑا کر نئی دنیا دریافت کرنے چل پڑا کہ شاید سکون پا سکوں ،مگر رشتے چُھوٹ گئے ۔۔آج اپنا اکیلا پن دیکھ کر مجھے خود سے گِھن آتی ہے۔
میرے اردگرد ظلم ہوتا رہا اور میں خود کو محفوظ کرنے کی تگ ودو میں لگا رہا، معصوم مرتے رہے اور میں شکر ادا کرتا رہا کہ میں محفوظ ہوں۔
واللہ مجھے خود سے گِھن آتی ہے۔
میں، میں ہوتا رہا اور وہ دور ہوتے رہے، خودساختہ بیڑیوں میں خود کو جکڑ کر میں سوچتا رہا کہ میں ٹھیک ہوں باقی سب غلط، اپنے نامراد وجود کو دیکھ کر مجھے خود سے گِھن آرہی ہے۔
میں گھناؤنا ہوں، منافق ہوں، رذیل ہوں مگر خود کو انسان سمجھتا ہوں اس لئے مجھے خود سے گِھن آتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں