قلم کار بنیے ساڑ نگار نہیں/پروفیسر ڈاکٹر محمد شہباز منج

زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ، نظام کے ایک دانش مندانہ اقدام کے نتیجے میں، موجودہ حالات کی تلخی میں کچھ بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے، تو کئی ساڑ نگاروں کو برداشت نہیں ہو رہی ، وہ پھر ماحول میں زہر گھولنے میں حصہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اس قبیل کے بہت سے احباب فرما رہے ہیں کہ پہلے ہی پتہ تھا کہ فلاں صاحب فلاں کی ضمانت کروا دیں گے، فلاں فلاں کو چھڑوا دے گا، فلاں کی آڈیو لیک ہوگئی، جس میں وہ فلاں کو یہ اور وہ کہہ رہا تھا!

یہ پڑھ پڑھ کر ہنسی آتی اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ لوگ کم ازکم پاکستان کے نظام میں رہتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں کام کیسے نکلتے ہیں، اور خود اسی طرح سے کام نکلواتے ہوئے بھی، نہایت ڈھیٹ پنے اورتجاہل عارفانہ سے کسی دوسرے کو کیسے ڈس کریڈٹ کر سکتے ہیں! او بھئی یہاں سب کچھ ہی طے ہوتا ہے، جس کی ضمانت ہو جانا پہلے سے معلوم ہونا آپ کو غیر اخلاقی لگ رہا ہے، اس کو جب پہلے سے طے شدہ منصوبے پر اٹھایا جاتا ہے، اس وقت آپ کو یہ اعتراض کیوں نہیں سوجھتا؟

ان کو معلوم بھی ہے اور ان میں سروائیول آف دی فٹسٹ پر یقین رکھنے والوں کے لیے تو یہ جاننا اور بھی آسان ہے کہ یہاں بقا کی جنگ ہے۔ اور جنگ حدیث کے بموجب بھی چالبازی کا نام ہے (الحرب خدعہ)۔ اس میں سب اپنا اپنا داؤ  لگاتے ہیں، دوسرے کو پچھاڑنے اور خود کو جتوانے کو۔ خود یہ اعتراض اٹھانے والوں کے اپنے یہاں اور گردو پیش میں بھی کھلے بندوں یہی ہو رہا ہے۔ ان کو خود اکثر پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ ان کا فلاں پسندیدہ کام یوں اور یوں ہوگا، اس وقت وہ اسے اپنی فتح سمجھ رہے ہوتے ہیں اور فخر سے کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں اور فلاں ہوشیاری سے متعلقہ بندوں کو رام کرکے کام نکلوایا، مگر جب یہی کام کوئی دوسرا کروا لے تو سیخ پا ہو جاتے ہیں۔

اس لیے یہ بس ساڑ ہے اخلاقیات نہیں، اگر اخلاقیات کا مسئلہ ہوتا تو یہ اخلاقیات انھیں اپنی باری بھی یاد آتی۔ تو جناب! زمینی حقیقت یہ ہے کہ اخلاقیات اصل طاقت نہیں، طاقت اصل اخلاقیات ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ایسا ہونا آئیڈیل ہے یا یونہی ہونا چاہیے، لیکن ہو بہر حال ایسا ہی رہا ہے۔ اس سچویشن کو اگر بدلنا ہے تو اپنے تنقید و تعمیر کے پیمانے اور اصول بھی بدلنے ہوں گے، ورنہ دوسرے کے خلاف ساڑ ہی ساڑ رہ جائے گا، حقیقی تعمیر کیا اس کا آغاز بھی ناممکن ہوگا۔ گویا تبدیلی مقصود ہے تو واقعی تعمیر کے جذبے سے بولیے اور لکھیے، محض ساڑ نکالنے سے تعمیر تو بالکل نہیں ہوگی، ہاں تخریب میں اضافہ ضرور ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حقیقت یہ ہے کہ سچ اور حقیقت کو سامنے رکھ کر تعمیر معاشرت میں حصہ ڈالنے والا قلم کار ہی حقیقی قلم کار اور مصلح ہے۔ جس کو اپنے ممدوح کا جھوٹ بھی سچ نظر آتا ہے اور مخالف کا سچ بھی جھوٹ اس کو ساڑ نگار تو کہا جا سکتا ہے، قلم کار نہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply