خواب اور انسانی تخیلات/ابو جون رضا

انسان خواب میں ایسا کچھ نہیں دیکھ سکتا جو اس نے کھلی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔

اگرچہ  اس کی شکل کچھ بدل جاتی ہے۔

یہ آزاد تخیل کا کمال ہے۔

خوابوں کے تمام نظارے اصل میں ہمارے شعور اور تحت الشعور ہی سے بنتے ہیں۔ یعنی خواب اصل میں ہمارے ذہن میں موجود مختلف شکلوں اور صورتوں ہی سے بنتا ہے۔ پھر ہمارے احساسات پر اتنا غالب آ جاتا ہے کہ جب تک ہماری آنکھ نہیں کھلتی، ہم خواب کو حقیقت ہی سمجھتے رہتے ہیں۔

خواب میں انسان ہوا میں پرواز کرتا ہے۔ کسی مردہ انسان کو دیکھتا ہے۔ کسی مقدس مقام کی زیارت کرتا ہے اور بیدار ہوکر بشارت کا اعلان کرتا ہے۔

جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کا ذہن پرانی یادوں اور بھولے بسرے واقعات کو خواب میں مکسچر بنا کر پیش کرتا ہے۔

اور وہ انسان صبح اٹھ کر کہتا ہے کہ دادا رات خواب میں آئے تھے۔ وہ بہت پریشان تھے کہ مجھے بخار ہورہا ہے۔ اور سب گھر والے دادا کی فاتحہ دلوانے کا بندوبست کرتے ہیں۔

مجھے ایک تقریب میں والدہ نے اپنی ایک خاتون دوست سے ملوایا اور بتایا کہ یہ شاعرہ ہیں اور قصیدے اور منقبت لکھتی ہیں۔

ان خاتون نے مجھے بتایا کہ انہوں نے جس ولی اللہ کی شان میں قصیدہ لکھا، اسی رات وہ خواب میں تشریف لے آئے۔

ایک صاحب جو ہمارے پرانے محلے میں رہتے تھے انہوں نے مجھے ایک دفعہ بتایا کہ جب بھی ان کو کوئی پیچیدہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ان کے مرحوم ابا خواب میں آکر ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔

اسی لیے انہوں نے اپنی بیٹی کے کئی رشتے مسترد کردیے کیونکہ ابا نے خواب میں آکر منع کردیا تھا۔

اس طرح کی لاتعداد مثالیں آپ کو اپنے اردگرد مل جائیں گی۔

میں اکثر لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ نے زندہ افراد مثلا ً اپنے بھائی بہن، والد، والدہ کو خواب میں دیکھا ہو؟ تو سبھی یہ جواب دیتے ہیں کہ ایسا بہت دفعہ ہوا ہے

میں پھر سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ نے بیدار ہوکر ان سے پوچھا کہ آپ میرے خواب میں آئے تھے؟

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ سو رہے تھے اور آپ کے اقرباء آپ کے دماغ میں داخل ہوکر خواب میں آپ کو نظر آئے ہوں؟

صاف ظاہر ہے کہ یہ دماغ کی کارستانیاں ہیں جو کبھی زندہ اور کبھی مردہ افراد کو مختلف انداز میں خواب میں پیش کرتی ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

یہ ہوائیں اُڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن
دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو

Advertisements
julia rana solicitors london

لے تو آئے شاعری بازار میں راحتؔ میاں
کیا ضروری ہے کہ لہجے کو بھی بازاری رکھو!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply