سچے پاکستانی،حقیقی محبِ وطن۔۔طلحہ نصیر شیخ

ایک چھوٹے  سے  واقعے   نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
آج تین لوگ میری دکان پر کھانا کھانے کے لئے آئے اُنھوں نے کھانے کا آرڈر  دیا اور انتظار کرنے لگے۔میں اپنے معمول کے کام میں مگن تھا۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو لڑکے نے اُنہیں سرو کیا۔
لڑکے نے حسبِ معمول کھانے کے ساتھ بوتل کا پوچھا۔
تو اُنھوں نے کہا ہم نے جو بوتل پینی ہے وہ آپ کے پاس نہیں  ہے۔ لڑکے نے اُنہیں کہا جناب میں باہر سے لا دیتا ہوں ۔ اُنھوں نے کہا کہ رہنے دیں آپ نہیں لا سکتے۔ یہ بات سن کر مجھے تجسس ہوا کہ ان سے پوچھا جائے کہ انہیں کون سی بوتل چاہیے۔
میں نے ان سے پوچھا تو
اُن کے جواب نے مجھے خوشگوار حیرت سے سرشار کردیا۔
ہمیں گورمے کولا چاہیے۔ یا گورمے کمپنی کی کوئی بھی بوتل چلے گی۔ یہ جواب میرے لئے کسی جھٹکے سے کم نہ تھا۔
میں نے جب اِن سے گورمے کی بوتل استعمال کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ صرف اور صرف کمپنی کا پاکستانی ہونا ہے۔
ان لوگوں کی پاکستان سے اس قدر محبت نے مجھے ،اُنہیں داد دینے پر مجبور کردیا۔

آج مجھے یقین ہوگیا کہ یہ مُلک صرف انہی  چند   حقیقی محب وطن پاکستانیوں کی وجہ سے قائم و دائم ہے۔جن کا جینا مرنا ہی پاکستان ہے۔ جن کو اپنی پاکستانیت پر فخر ہے۔ان غیور پاکستانیوں کو جو اس بات سے قطع تعلق ہیں کہ
۱- اُن کے مُلک کا نظام انصاف دُنیا کا بدترین نظام ہے۔ جو لوگوں  کو بیس بیس سال کی ناحق سزا دے کر بری کرتا ہے۔
۲-اُن کے ملک کی پولیس دنیا کی کرپٹ ترین پولیس ہے۔
۳-اِن کے مُلک کے اساتذہ سرکاری تنخواہوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ اسکولوں کے ساتھ شراکت داری کر کے بچوں کے والدین سے فیسوں کی آڑ میں ناجائز منافع کما کر دے رہے ہیں۔اور امتحانات میں سر عام بوٹیاں لگوا کر طالب علموں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔
۴-ان کے مُلک کے ہر محکمے میں کرپشن اقرباپروری عام ہے۔ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ان کے حکمران سیاستدان و بیوروکریسی ملک سے مخلص نہیں۔ وہ صرف اس ملک میں حکومت کرتے ہیں۔ اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیرون ملک مقیم ہو جاتے ہیں۔
۵-ان کے مُلک میں امیر کو ضمانت دینے کے لیے اعلیٰ  عدالتیں چھٹی کے دن بھی کھل جاتی ہیں۔
۶-اِن کے ملک میں نوکریاں نہیں ہیں۔غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے۔ جب کہ حکمران وقت کہتا ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے۔
۷-ان کے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے۔
۸-ان کے مُلک میں امیر کے لیے  مختلف قانون اور غریب کے لیے مختلف  قانون ہے۔
۹-ان کے ملک کی پولیس سانحہ ساہیوال و ماڈل ٹاؤن کی طرح کسی بھی وقت اُنہیں جان سے مار سکتی  ہے  اور لواحقین کو انصاف لینے کےلیےکئی نسلوں تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

الغرض ان تمام خرافات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے وطن عزیز اس قدر محبت کرنے والوں کو میری اور پوری قوم کی طرف سے سرخ سلام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply